کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشا کیخلاف مقدمے میں نئی دفعہ شامل 

کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشا کیخلاف مقدمے میں نئی دفعہ شامل 
کیپشن: کارساز حادثہ: ملزمہ نتاشا کیخلاف مقدمے میں نئی دفعہ شامل 

ویب ڈیسک: کارساز حادثہ کیس میں نئی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ جہاں تفتیشی پولیس نے مقدمے میں ایک اور دفعہ شامل کردی ہے۔ دفعہ 100 موٹر وہیکل ایکٹ کے تحت درج کی گئی ہے۔ دفعہ کا اضافہ نتاشا دانش کے میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

وکیل مدعی بیرسٹر عزیر غوری کی احاطہ عدالت میں گفتگو:

مدعی مقدمہ کے وکیل بیرسٹر عزیر غوری نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ملزمہ کے وکیل نے حاضری سے استثنی کی درخواست عدالت میں جمع کروائی ہے۔ عدالت نے صرف آج کے لیے ویڈیو لنک پر حاضری کی اجازت دی ہے۔ پولیس نے چالان ابھی تو جمع نہیں کروایا ہے۔

بیرسٹر عزیرغوری نے کہا کہ ممکن ہے کہ عدالت تفتیشی افسر کو چالان جمع کروانے کے لیے مہلت دے دے۔ پولیس نے منشیات کے استعمال پر الگ مقدمہ درج کیا ہے۔ الگ مقدمہ درج کرنے کے بجائے مرکزی مقدمہ میں دفعات شامل کرنی چاہیے تھیں۔ سپریم کورٹ کی اس حوالے سے واضح ڈائریکشن موجود ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ دونوں مقدمات ایک ساتھ ہی چلیں گے۔ میرے مؤکل کو اگر دیت کے حوالے سے کوئی رابطہ ہوا ہے تو میرے علم میں نہیں۔ لگائی گئی دفعہ 322 میں دیت ہی سزا ہے۔ عدالت چاندی کے حساب سے دیت کی رقم کی منظوری دیتی ہے۔ مدعی فیملی پر دباؤ ضرور ہے۔ مدعی نے اس حوالے سے اکثر اوقات دباؤ کے حوالے سے بتایا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی میں 19 اگست کو تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے والد اور بیٹی کی جان لینے کے واقعے کی ملزمہ خاتون کے خلاف منشیات استعمال کرنے سے متعلق ایک اور مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

لیکن سماجی حلقوں کی جانب سے اب بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا اس کیس کا اختتام بھی کئی دیگر کیسز کی طرح صلح نامے پر ہوگا یا ایک انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والی ملزمہ کو قانون کے تحت سزا ملے گی۔

پولیس نے ملزمہ نتاشا دانش پر درج کیے گئے مقدمے میں الزام عائد کیا ہے کہ ملزمہ کے خون اور یورین کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے میتھافیٹامائین (آئس) کا نشہ کیا ہوا تھا۔

اس مقدمے پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزمہ سے تفتیش کی اجازت بھی دے دی ہے۔ تاہم بعض وکلا دوسرے مقدمے میں امتناع منشیات پروبیشن آف حد (حدود آرڈیننس) 1979 کی دفعات شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔

ادھر کیس کے مدعی اور واقعے میں ہلاک ہونے والے 62 سالہ عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف پولیس کی جانب سے اب تک کی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس واقعے میں عمران عارف کی 22 سالہ بیٹی آمنہ عارف کی بھی موت ہوئی تھی۔

مدعی امتیاز عارف کا کہنا ہے کہ شروع میں تو پولیس کا رویہ انتہائی مایوس کُن اور سرد تھا۔ لیکن اب پولیس نے کافی تندہی سے اس کیس میں تفتیش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی ضلع شرقی اظفر مہیسر نے جو وعدہ کیا تھا اس کے تحت ہی ملزمہ کے خلاف کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔

اس سوال پر کہ کیا ملزمہ کے خاندان سے ان کا کوئی رابطہ ہوا ہے؟

امتیاز عارف کا کہنا تھا کہ نتاشا کے خاندان کی کچھ خواتین تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئی تھیں۔ یہ صرف تعزیتی ملاقات تھی اور اس مختصر سی ملاقات میں اس دوران کسی اور موضوع پر کوئی بات نہیں۔ انہوں نے مزید سوالات کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ فیملی کی جانب سے اس موضوع پر زیادہ بات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

ملزمہ کے وکیل عامر منسوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک بار پھر دہرایا کہ ملزمہ نفسیاتی مریضہ ہے اور 19 سال سے اس کا علاج چل رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ یہ ایک حادثہ ہے، ملزمہ اور اس کی فیملی، غمزدہ خاندان سے معافی مانگنے اور ان کو مالی معاوضے کی ادائیگی کے لیے تیار ہے اور قانون بھی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دانش مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ معاملہ اسی طرح حل ہوسکتا ہے۔ متاثرہ خاندان کا قانونی حق ہے کہ وہ دیت حاصل کرسکتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ملزمہ کے پاس گاڑی چلانے کا لائسنس بھی نہیں تھا۔ تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ برطانوی شہریت اور گاڑی چلانے کے لیے برطانوی لائسنس کی حامل ہیں اور پاکستان میں چھ ماہ تک اس لائسنس پر گاڑی چلانا درست مانا جاتا ہے۔

ایک اور مقدمہ درج

پولیس کی جانب سے اسی واقعے کی دوسری ایف آئی آر کے اندراج اور اس میں ملزمہ پر آئس کے استعمال کے الزامات شامل کرنے پر نتاشا کے وکیل کا کہنا ہے کہ جس سیکشن کے تحت یہ ایف آئی آر درج کی گئی اس کے تحت شراب پی کر گاڑی چلانا قابل گرفت ہے اور اس میں آئس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ وہ اس ایف آئی آر کے خلاف قانونی نکات عدالت میں پیش کریں گے۔

اسی طرح کا مؤقف بعض دیگر وکلا کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور وکیل جبران ناصر نے بھی امتناع منشیات حدود آرڈیننس کی دفعات شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میتھا فیٹامین (آئس/کرسٹل میتھ) نارکوٹکس کنٹرول ایکٹ 1997 کے تحت ایک شیڈولڈ ممنوعہ منشیات ہے اور نشہ آور اشیا کے کنٹرول کے ترمیمی ایکٹ 2022 کے تحت جرم ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے نشے کے زیر اثر گاڑی چلانا صوبائی موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کی دفعہ 100 کے تحت بھی جرم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کارساز کیس میں حدود آرڈیننس کا اطلاق کیوں کیا گیا کیوں کہ اس قانون کا اطلاق اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی ایسی دوا کھائی جائے جو 1979 کے آرڈر کے شیڈول میں بیان کی گئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت ایسی نشہ آور اشیا بھی آسکتی ہیں جو بعد میں وفاقی یا صوبائی حکومت کے نوٹیفکیشن کے ذریعے شیڈول آف دی آرڈر میں شامل کی گئی ہوں۔ اسی صورت میں متعلقہ کا اطلاق ہوتا ہے اور اس شیڈول میں شراب تو شامل ہے لیکن میتھا فیٹامین شامل نہیں ہے۔

پولیس افسران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسی کیس میں مزید دفعات درج کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے جس کے تحت مقدمے میں موٹر وہیکل آرڈیننس کی دفعات شامل کی جائیں گی۔

دوسری جانب ملزمہ کے شوہر اور گاڑی کے مالک دانش اقبال کو سات روزہ حفاظتی ضمانت مل گئی ہے اور انہیں متعلقہ عدالت میں ایک ہفتے میں حاضر ہوکر تفتیش میں پولیس سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Watch Live Public News