سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں کاکیس، چیف جسٹس اور ججز کےدرمیان نوک جھوک

سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں کاکیس، چیف جسٹس اور ججز کےدرمیان نوک جھوک
کیپشن: سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں کاکیس، چیف جسٹس اور ججز کےدرمیان نوک جھوک

ویب ڈیسک: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت  کے دوران  چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور ججز کے درمیان نوک جھوک ہوگئی۔

تفصیلات کے مطابق    سپریم کورٹ آف پاکستان کا 13 رکنی فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تمام ججز بنچ کا حصہ ہیں جبکہ بیماری کے باعث جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ نہیں ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب پی ٹی آئی موجود تھی اور مخصوص نشستوں کیلئے کاغذات جمع کرائے گئے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صدیقی صاحب آپ بات جاری رکھیں ججز کے سوالات بعد میں ہوتے رہیں گے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا،پشاور ہائیکورٹ نے 10 جنوی کو الیکشن کمیشن کا حکم نامہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ 22 دسمبر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔

فیصل صدیقی  نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمار کس دیئے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی اور مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟ 

فیصل صدیقی  نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں۔

فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیاکہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزہ اور تکلیف یہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو آرٹیکل 218(3)کا حوالہ دینا بہت پسند ہے،بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے منطق کے بغیر فیصلہ دیا،ایک سیاسی جماعت الیکشن لڑ رہی ہو تو اس سے مخصوص نشستیں کیسے واپس لے سکتے ہیں؟۔ 

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اگر پی ٹی آئی خود جماعت ہے تو کیس ختم ہوگیا،پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں پھر سنی اتحاد کونسل کیسے لے سکتی ہے؟۔ 

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے اس کو مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں،یہ سارا معاملہ عوام کا ہے،عوام سے ان کا حق نہیں لیا جاسکتا۔

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی،الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے،اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل  نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔

ججز کے سوالات پر چیف جسٹس نے  فیصل صدیقی کو جواب دینے سے روک دیا۔

چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے،میں ایک بار ایک عدالت پیش ہوا تو کہا تھا آپ اگر فیصلہ کر چکے ہوئے تو میں اپناکیس ختم کرتا ہوں،آپ اپنے دلائل نہیں دینگے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔ 

جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے،فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔

Watch Live Public News