عدالت ریاستی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی: چیف جسٹس

عدالت ریاستی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی: چیف جسٹس
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت عالیہ کا فوکس صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ہے۔ ترجیح ہے کہ صرف اس نقطے پر ہی فیصلہ ہو۔ عدالت خارجہ پالیسی اور ریاستی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے صرف اقدامات کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔ تمام فریقین کو کہیں گے کہ اس نقطے پر ہی فوکس کریں۔ تفصیل کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ خاتون وکیل نے فریق بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سارا مسئلہ سابق سفیر اسد مجید کی وجہ سے بنا، انھیں عدالت طلب کرکے اور پوچھے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے۔ فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا عدالت میں اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی اب تو اپنے بیان میں کہہ چکا ہے کہ ملک میں تین مہینوں میں الیکشن ممکن نہیں ہیں۔ کوشش ہے جلد دلائل مکمل ہوں اور فیصلہ آ جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم بھی جلد فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقوں کا موقف لازمی سنیں گے۔ مسلم لیگ ‏ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ایک کے تحت عدم اعتماد قرار داد جمع ہوئی۔ عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہیں، عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی، عدم اعتماد پر مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، 31 مارچ کو قرار داد پر بحث نہہں کرائی گئی، 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، وزیراعظم اکثریت کھو دیں تو عہدے پر رہنا پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے، آئین میں نہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20 فیصد ارکان ضروری ہیں، 20 فیصد منظوری دیں لیکن ایوان میں موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا ؟ وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پر ووٹنگ ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جاسکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔ وکیل مخدوم علی نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکرکی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا عدالت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے ؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کرسکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت فی الحال صرف آئینی معاملات کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس اداروں سے بریفنگ لے سکتی ہے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔