(ویب ڈیسک) پاکستانی میوزک انڈسٹری کی معروف گلوکارہ آئمہ بیگ نے عُمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ملک بھر میں ‘ می ٹو’ مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد شو بز انڈسٹری سمیت اہم افراد میں افراتفری کا سماں، ہلچل مچ گئی ۔
آئمہ بیگ نے اپنے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کی اسٹوری میں کہا کہ عُمرے کی ادائیگی کے بعد مجھے بہت ہمت ملی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میرے ملک کی خواتین کو مضبوط بنانے اور اُنہیں دھوکے باز لوگوں سے بچانے کے لیے ‘ می ٹو’ مہم کی بہت ضرورت ہے۔
گلوکارہ نے کہا کہ کافی عرصے سے میری نظر میں کئی ایسے شکاری لوگ ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی زندگیاں تباہ و برباد کی ہیں لیکن میں چند وجوہات کی وجہ سے اب تک خاموش تھی۔
اُنہوں نے کہا کہ میں اپنی خاموشی کی وجہ سے ہمیشہ شرمندہ رہوں گی لیکن اب میں اعلان کررہی ہوں کہ میں بہت جلد ‘ می ٹو تحریک’ کا آغاز کرنے والی ہوں، میں خواتین کے لیے آواز بُلند کروں گی۔
آئمہ بیگ نے کہا کہ اس تحریک کے ذریعے پیغام دوں گی کہ ہم خواتین کوئی کھلونا یا مذاق نہیں ہیں بلکہ ہم مردوں کے اس دنیا میں وجود کا سبب ہیں لہٰذا ہمیں عزت ملنی چاہیے۔
گلوکارہ نے خواتین سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس می ٹو تحریک کے ذریعے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بُلند کریں کیونکہ کئی لڑکیاں زیادتیوں کی وجہ سے ذہنی و جسمانی تکلیف کا سامنا کررہی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ میرے پاس کچھ لوگوں کے ناموں کی فہرست ہے جنہوں نے خواتین پر ظلم کیا، ہم دلائل اور ثبوت کے ساتھ کام کریں گے اور تمام خواتین کی مدد کریں گے۔
یادرہے می ٹو مہم کا آغاز امریکا سے اکتوبر 2017 میں ’ می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ سے کیا گیا تھا۔
اس دن امریکا و یورپ سمیت دنیا بھر کی معروف خواتین سمیت عام خواتین نے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے خود کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سنائے تھے۔
ٹوئٹر پر سب سے پہلے ’ می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ اداکارہ ایلسا میلانو نے کیا تھا، انہوں نے ہیش ٹیگ استعمال کرنے کے بجائے دنیا بھر کی خواتین کو اپیل کی تھی کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو ٹوئٹر پر شیئر کرکے می ٹو کا ہیش ٹیگ استعمال کریں۔
نیویارک ٹائمز اور نیویارکر میگزین نے متعدد اداکاراؤں کے انٹرویوز کیے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں معروف ہولی وڈ فلم پروڈیوسر 68 سالہ ہاروی وائنسٹن نے کئی سال تک جنسی ہراسانی، استحصال اور ریپ کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں ہاروی وائنسٹن کے خلاف دیگر خواتین بھی سامنے آئیں اور ان پر مجموعی طور پر 100 سے زائد خواتین نے کئی سال جنسی استحصال، ہراسانی، بلیک میلنگ، جنسی تشدد، سیکس اور ریپ کے الزامات لگائے، جس کے بعد ان کے خلاف نیویارک اور لندن میں تحقیقات بھی شروع ہوئیں۔ جس کے بعد انہیں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی ۔
جنوری 2018 میں بنائے جانے والے ادارے ٹائمز اپ فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ گزشتہ تین سال میں جنسی ہراسانی کی شکایات کرنے والی خواتین کے مسائل میں اضافہ ہوگیا۔
زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ ’ می ٹو‘ مہم کے شروع ہوتے ہی دنیا میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور اب ہر کوئی اور خصوصی طور پر ہر خاتون یا لڑکی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دل کھول کر بیان کر رہی ہے۔
جنوری 2018 سے اپریل 2020 تک رپورٹ ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ شکایت کرنے والی ہر 10 میں سے 7 خواتین کو انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جن خواتین نے جنسی ہراسانی یا ریپ کی شکایات کی تھیں، ان میں سے زیادہ تر خواتین کو شکایات کے بعد ملازمتوں سے نکال دیا گیا یا پھر انہیں نظر انداز کرکے انتہائی سختی سے کام لیا گیا۔