وقار ذکاء کے دعوؤں سے پاکستان کا قرض اتر سکتا ہے؟

وقار ذکاء کے دعوؤں سے پاکستان کا قرض اتر سکتا ہے؟
بٹ کوائن پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے، کرپٹو کرنسی کے ساتھ پاکستان کے قرضے چٹکیوں میں اتر جائیں، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے تو آن لائن کرنسی کی طرف جانا ہو گا، کرپٹو کرنسی یہ ، کرپٹو کرنسی وہ، بٹ کوائن یہ کر دے گا، بٹ کوائن وہ کر دے۔۔۔یہ جملے آپ کو سوشل میڈیا پر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہوں گے، کسی نے آپ کے ساتھ شیئر کیے ہوں گے، اپنی ٹائم لائن پر سجا رکھے ہوں گے، واٹس ایپ پر کسی گروپ میں بھیجے ہوں گے یا پھر ٹوئٹر پر کسی نہ کسی کی سجیشن کے ساتھ سامنے آئے ہوں گے۔پلیٹ فارم یا ذریعہ کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن ان جملوں کا محور و مرکز ایک ہی ہے، اور وہ ہے۔۔۔۔ وقارررر ذکاءءءءء۔۔۔۔۔ ہاں جی وقار ذکاء۔۔۔۔یہ وہی صاحب ہیں جو اپنے آپ کو کرپٹو کرنسی کا سب سے بڑا حامی، بٹ کوائن کا سرے کا ایڈووکیٹ اور اس کے علاوہ جو جو آپ سمجھ سکتے ہیں، وہ وہ ، خود کو کہتے ہیں۔ناظرین یہاں پر ہم آپ کو لے جاتے ہیں اس دعویٰ کی طرف جو انھوں نے ملکی تاریخ بدل دینے کے حوالے سے کیا تھا۔ محترم نے کہا تھا کہ اگر حکومت 2016ء میں ان کا کہا مان لیتی تو اب تک ملک کا تمام تر قرض اتر چکا ہوتا۔ کرپٹو کرنسی کے اس وکیل نے مزید کہا کہ میں چاہتا تھا حکومت بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کرے اور کرپٹو کرنسی کو ملک میں قانونی حیثیت دے تاہم کسی نے میری بات نہیں سنی۔ناظرین آپ کو بتاتے چلیں کہ اس وقت بٹ کوائن کی قیمت صرف 268 ڈالر فی یونٹ تھی۔ گزشتہ برس کے اختتام پر جب بٹ کوائن 26 ہزار 390 فی یونٹ تک پہنچا تو انھوں نے پھر انٹری ماری۔ کرپٹو کرنسی کی بڑھتی ہوئے قیمتوں کو بنیاد بنا کر انہوں نے کہا کہ میں ٹھیک تھا۔ اپنی کسی بھی بات کی شنوائی نہ ہونے پر بٹ کوائن کا یہ ایڈووکیٹ کچھ مایوس سا ہو گیا۔ جب اور کوئی بس نہ چل سکا تو جناب نے اپنے سوشل میڈیا پر موجود فالوورز کا سہارا ڈھونڈا اور ان سے درخواست کی کہ وہ " وقار ذکاء ٹھیک تھا" کا ہیش ٹیگ شروع کریں۔ کرپٹو کرنسی کرپٹو کرنسی کی دن رات گردان کرنے والے اس 'ماہر معاشیات' نے اپنے سوشل میڈیا فالورز سے اپیل کی کہ اس ہیش ٹیگ کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو بھی ٹیگ کیا جائے، جنہوں نے ان کی بات نہیں سنی۔محض تین گھنٹوں میں یہ ٹوئٹر کے ٹاپ تھری ٹرینڈز شامل ہو چکا تھا۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ وقار ذکاء کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کوئی حقیقت بھی رکھتے ہیں یا صرف وہ سٹنٹ مارتے پھر رہے ہیں۔ناظرین اوپر آپ کو بتایا تھا کہ جس وقت وقار ذکاء حکومت کو کرپٹو کرنسی کی اجازت اور سرمایہ کاری کے لیے کہا تھا تب بٹ کوائن صرف 268 ڈالر فی یونٹ تھا۔ بعد ازاں جو انھوں نے قیمت بتائی اس کے مطابق بٹ کوائن 26 ہزار 390 فی یونٹ تک پہنچ چکا تھا۔سماء منی کے فاروق بلوچ نے وقار ذکاء کے دعوؤں کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔ انھوں نے سب سے پہلے تو یہ بتایا کہ اپریل 2019 سے قبل وقار ذکاء کی جانب سے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں گیا، اگر انھوں نے ایسا دعویٰ کیا بھی ہے تو اس کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔اگر ہم ان کے دعویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے بٹ کوائن کی قیمت اور ان کے مشورہ پر جائیں تو 268 ڈالر سے شروع ہونے والا کورونا وائرس کے آغاز (یعنی مارچ 2020) تک 5310 ڈالر فی یونٹ تک پہنچا۔ ہمارے وکیل صاحب کہتے ہیں کہ اس دوران ہونے والے منافع سے پاکستان کا تمام تر قرض اتر سکتا تھا۔مزید اعدادوشمار کی باریکی میں جائیں تو اس وقت ایک بٹ کوائن کی قیمت 268 جبکہ ایک ڈالر 105 روپے کا تھا۔ یعنی ایک کروڑ کے 95 ہزار 238 ڈالر بنتے، جس سے ہم سے کو 356 بٹ کوائن کے یونٹ مل جاتے۔ آگے چلتے ہیں۔مارچ 2020 میں یہی 356 بٹ کوائن یونٹس ہم 5310 ڈالر کے حساب سے بیچ سکتے تھے جو تقریباً انیس لاکھ ڈالر بنتے۔ وقار ذکاء نے جو دعویٰ کیا اس کو ذرا یہاں دیکھئے کہ اس وقت پاکستان کا بیرونی قرض 70 ارب ڈالر بنتا تھا۔ اگر ہم بٹ کوائن سے ملنے والی رقم کو دیکھیں تو وہ اعشاریہ صفر صفر ایک بنتی تھی۔ واضح رہے کہ یہ صرف بیرونی قرضے ہیں، کل قرضے اس کا تین گنا بنتے ہیں۔مزید آگے چلتے ہیں، یہی بٹ کوائن جب وقار نے دوبارہ دعویٰ کیا تھا، تب کے وقت پر آ کے ماپتے ہیں جب بٹ کوائن فی یونٹ 26390 ڈالر کا تھا تو ان 356 بٹ کوائن یونٹس سے 94 لاکھ ڈالر حاصل ہوتے۔ لیکن تب تک پاکستان کا قرض بھی 73 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔اگر ہم آج کی بات کریں تو فی یونٹ 57ہزار 141 ڈالر کا ہے۔ یعنی اب ان بٹ کوائن یونٹس سے 2 کروڑ 3 لاکھ 42 ہزار ڈالر حاصل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کا بیرونی قرض 87 ارب ڈالر سے اوپر جا چکا ہے۔ جس کے لیے متعلقہ رقم ناکافی ہے۔یہ دعویٰ وقار کا تھا کہ ایک کروڑ کی سرمایہ کاری سے بھی ملک کے قرضے اتر جاتے مگر یہ کسی بھی طور ثابت نہ ہو سکا۔ آپ کیلکو لیٹر لے کر بیٹھیں اور حساب کرتے جائیں، چاہے ہم ایک ارب کے بٹ کوائن خرید لیتے تب بھی اس سے حاصل ہونے والی رقم کل قرضوں کا 2.5 فیصد بننا تھی۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔