ویب ڈیسک:44 سال۔ پورے 44 سال، 10مہینے اور2 دن بعد آج سُپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بُھٹوشہید کے عدالتی قتل کو تسلیم کرلیا تو ان کے نواسے آنسوؤں پر قابو نہ پاسکے اور بے اختیار آبدیدہ ہوگئے.
تفصیلا ت کے مطابق واضح رہے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو دی جانے والی پھانسی کے خلاف سال 2011 میں اس وقت کے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔
اس ریفرنس میں ذوالفقارعلی بھٹو کے ٹرائل اور پھانسی پر نظرثانی کے حوالے سے عدالت سے رائے طلب کی گئی تھی۔
آصف زرداری کے سپریم کورٹ سے پانچ سوال
ریفرنس میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جائزہ لے کہ کیا بھٹو کے قتل کا مقدمہ آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا، کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدالتی نظیر کے تحت لاگو ہو سکتا ہے، سزائے موت کا یہ فیصلہ منصفانہ اور جانبدارانہ نہیں تھا، کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے اور کیا اس مقدمے میں پیش کیے گیے ثبوت اور گواہان کے بیانات بھٹو کو سزائے موت دینے کے لیے کافی تھے؟
جب یہ صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تو اس وقت افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے جن کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے اس کی چھ ابتدائی سماعتیں کیں۔
کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی تاہم 12 نومبر 2012 کو اس ریفرنس کی چھٹی اور اب تک کی آخری سماعت کے بعد یہ مقدمہ پھر عدالت میں نہیں لگا اور اب 11 سال بعد چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں ایک مرتبہ پھر سنا گیا۔
نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں۔