پیٹرولیم قیمتیں؛ مکمل کہانی کیا ہے؟

پیٹرولیم قیمتیں؛ مکمل کہانی کیا ہے؟
( پبلک نیوز): یہ تحریر کمزور دل افرادکے لیے نہیں ہے۔ اگر کمزور دل والے اسے پڑھنا چاہیں تو اپنی ذمہ داری پر پڑھیں ۔ کیونکہ اس میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ حکومت کو ایک لٹر پٹرول کتنا سستا پڑتا ہے، کتنے روپے میں ملتا ہے؟ اس وقت عالمی مارکیٹ میں پٹرول کا ریٹ کیا ہے اور پاکستان میں کتنا؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور میں پٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کتنی تھی اور پاکستان میں کتنی؟ حکومت نے اس مالی سال میں ایک لٹر پٹرول کی کتنی قیمت بڑھائی ہے ؟کیا ملک میں مہنگائی کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی مہنگائی ہے؟ ان سوالوں کے جواب اور بہت سی دل دہلادینے والی معلومات کیلئے پانی پی لیں. قارئین‌! حکومت یہ بار بار کہہ رہی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی۔ تو کیا یہ قیمت بہت زیادہ ہے؟ ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ شہباز گل صاحب کے اس ٹویٹ کے مطابق اس وقت برینٹ آئل کی قیمت ہے 83.2 ڈالرز فی بیرل۔ ایک بیرل میں ہوتے ہیں 159 لٹر۔ ڈالر کا ریٹ ہے 170 روپے۔ یوں 159 لٹر تیل ہوا 14 ہزار 144 روپے کا۔ جبکہ ایک لٹر ہوا 88 روپے 96 پیسے یا 89 روپے کا۔ اور ملک میں اس وقت پٹرول کا ریٹ بھلا کتنا ہے؟ 145 روپے 82 پیسے۔ معصومانہ سوال یہ ہے کہ یہ 56 روپے 86 پیسے کہاں جارہے ہیں؟ اب آپ کے ذہن میں سوال اٹھے گا کہ بھائی یہ تو کروڈ آئل کا ریٹ ہے۔تو جواب اس کا بھی سادہ سا ہے۔ ہمارا ملک تیل پر چلتا ہے۔ تیل مہنگا تو سب کچھ مہنگا۔پھر اس جیسی اہم ترین چیز پر اتنے اخراجات اور منافع کیوں اور کیسے؟ حکومت ٹیکس کم کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے مگر اتنا بڑا منافع کیوں کم نہیں کرتی؟اس میں کس کس مافیا کے کتنے کتنے کھانچے ہیں کم از کم یہی بتا دیں عوام کو۔ خیر یہ بھی جان لیتے ہیں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کس حکومت میں سب سے زیادہ رہیں۔ 2007 میں اسی برینٹ آئل کی سب سے زیادہ قیمت رہی 96 ڈالرز۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور اس سال اس کی میکسی مم قیمت پتہ ہے کتنی ہوگئی تھی؟؟؟ 144 ڈالرز۔۔۔ یعنی 48 ڈالرز کا جمپ۔ اور کیا یہ بھی پتہ ہے کہ اس وقت پٹرول کی زیادہ سے زیادہ قیمت کتنی ہوئی تھی ؟؟ 88 روپے 66 پیسے۔۔کیوں آرہا ہے نا مزا؟؟؟اور مزہ لیں۔ 2013 میں ن لیگ کی حکومت آئی تو انہیں بس اسی سال مہنگا تیل ملا۔ اُس برس عالمی مارکیٹ میں تیل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 119 ڈالرز فی بیرل تک گئی جبکہ اس برس ملک میں پٹرول کی زیادہ سے زیادہ قیمت 113 روپے 24 پیسے ہوئی تھی۔ یعنی پچھلی دو حکومتوں میں جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں سب سے زیادہ بڑھیں تو ملک میں عوام پر بہت کم بوجھ ڈالا گیا۔ باقیوں کو تو چھوڑیں خود پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال کی بات کرلیتے ہیں۔ 2018 میں برینٹ آئل کی عالمی مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ قیمت ہو گئی تھی 86 ڈالرز فی بیرل جو کہ آج کی قیمت سے زیادہ ہے مگر اس وقت پٹرول کا ریٹ کم تھا جناب۔۔۔ بس 100روپے کے آس پاس تھا۔ کیا اب بھی آپ مانیں گے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا حکومتی جواز درست ہے؟ پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو انہیں پٹرول کی قیمت ملی 62.81 روپے۔ ان کی حکومت گئی مارچ 2013 میں تب پٹرول کی قیمت ہوگئی تھی 103 روپے۔ اس دور میں جب پٹرول عالمی مارکیٹ میں سب سے مہنگا رہا تو 5 سال میں اسکی فی لٹر قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا۔ ن لیگ کی حکومت آئی تو انہیں فی لٹر پٹرول ملا 99 روپے 77 پیسے۔ اس دور میں پٹرول کی انٹرنیشنل پرائسز گرنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس لیے ان کی حکومت کے خاتمے کے وقت اس کی قیمت تھی 87 روپے 70 پیسے۔ اگست 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو اس وقت پٹرول تھا 95 روپے 24 پیسے فی لٹر۔ اس وقت تیل کی عالمی قیمت ساڑھے 72 ڈالرز فی بیرل تھی۔ اور آج کتنی ہے ، آپ کو بھی پتہ ہے اور ہم بھی بتلا چکے۔ اب ذرا ڈالر کا بھی ذکر کرلیتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت صرف اسکی انٹرنیشنل پرائس کی وجہ سے نہیں بڑھ رہی۔ چکر تو ڈالر کا بھی ہے ، جو مجال ہے حکومت آپ کو بتائے۔ کیونکہ ڈالر مہنگا ہونے کا ملبہ عالمی مارکیٹ پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ خیر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو ڈالر 82 روپے کا تھا۔ وہ جاتے جاتے اسے16 روپے مہنگا کرکے 98 روپے کا کرگئے۔ پھر2018 میں ن لیگ کی حکومت گئی تو ڈالر119 روپے کا ہوچکا تھا۔ اس دور میں ڈالر 21 روپے مہنگا ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے دن یعنی 18 اگست 2018 کو اس کی قیمت تھی 123 روپے۔ اور آج یہ ہے 170 روپے کا۔ یعنی سوا تین سال میں پی ٹی آئی حکومت میں ڈالر 47 روپے بڑھ چکا ہے۔ یعنی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے 10 سالوں میں ڈالر 37 روپے بڑھا جبکہ اس حکومت کے سوا تین برس میں ان دونوں سے بھی 10 روپے زیادہ۔ اسے کہتے ہیں، تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔ مگر حکومت یہی کہتی ہے اور شاید کہتی رہے گی کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں بھی مہنگائی ہے۔تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔