پاکستان میں ریلوے ٹرین حادثہ غیر معمولی نہیں رہا، ہر سال کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ دیکھنے کو ملتا ہے

پاکستان میں ریلوے ٹرین حادثہ غیر معمولی نہیں رہا، ہر سال کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ دیکھنے کو ملتا ہے
گزشتہ 4 برسوں کے دوران مختلف ٹرین حادثات کیں 350 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ صرف 7 ماہ کے دوران ٹرین کے نے رحم وہیلز نے 22 افراد کو کچل دیا۔ گزشتہ روز نواب شاہ کے قریب سرہاری ریلوے اسٹیشن پر بھی ہزارہ ایکسپریس کا حادثہ سن کر تعجب نہیں ہوا البتہ 30 قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس ضرور ہے جبکہ 64 افراد کے زخم ساری زندگی انہیں اس حادثے کو یاد دلاتے رہیں گے۔ صرف ایک سال کے دوران 3 بڑے حادثات ہوئے جن میں بچے اور خواتین سمیت 39 افراد افراد جان سے گئے۔۔ ارباب اختیار کو خیال ہی نہ آیا کہ سندھ میں موجود ریلوے ٹریک کی بہتری کے لئے کچھ عملی اقدام ہی کرتے جائیں۔ لیکن یہاں ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بنتی ہے جن سے مخصوص طبقہ ہی فیض یاب ہوتا ہے۔ ہزارہ ایکسپریس کے حادثے نے درجنوں بچوں کو یتیم کر دیا کوئی مائوں کی گود اور سہاگنوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ زخمی مختلف ہسپتالوں میں بے یارومددگار کراہ رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ کہ ریلوے ٹکٹوں کے ذریعے انشورنس کے پیسے وصول کرکے ہڑپ کر گیا اور مسافروں کی انشورنس سرے سے کرائی ہی نہیں۔ 4 ماہ سے ٹکٹوں کے ذریعے ٹریول انشورنس مد میں کروڑوں روپے کما لئے گئے جن کا کوئی آڈٹ نہیں۔ پاکستان ریلوے اور انشورنس کمپنی کے مابین ٹریول انشورنس کا معاہدہ 4 ماہ سے ری نیو نہیں کیا گیا جس کا خمیازہ ہزارہ ایکسپریس کے معصوم اور موت کے منہ میں جانے والے مسافروں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اگر مسافروں کی انشورنس کا عمل ہوتا تو فی مسافر 15 لاکھ روپے انشورنس کمپنی کی جانب سے جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کو مدد کے طور مل جاتے جبکہ زخمیوں کو بھی 50 ہزار فی کس مل جاتے۔ سال 2021 میں چھوٹے، بڑے 152 ٹرین حادثات ہوئے جبکہ 2022 میں 56 حادثات ہوئے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب کے بعد متعدد ٹرینیں بند کر دی گئیں جس کی وجہ سے بند کی گئی لاکھوں مسافروں کو پریشانی کا سامنا رہا لیکن وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثہ کی معلومات کیلئے لاہور اور فیصل آباد ریلوے سٹیشنوں پر ہیلپ ڈیسک قائم کردیئے گئے ۔جائے حادثہ سے موصول ہونے والی معلومات مسافروں کو فراہم کی جا رہی ہے۔ ہزارہ ایکسپریس حادثے کے بعد سنگل ٹریک بحال کر دیا گیا، ریلوے حکام کے مطابق نواب شاہ سے سرہاری تک سنگل لائن پر ٹریفک کو گزارا جا رہا ہے، ہزارہ ایکسپریس کے حادثے کی وجہ سے ٹرینیں گھنٹوں تاخیر کا شکار ہیں جبکہ کچھ ٹرینیں 5 اگست سے نکلی ہیں اور ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکیں۔ اس دوران ٹرین میں بیٹھے مسافروں کا اللہ ہی حافظ ہے جن کے پاس نہ کھانے کو کچھ اور نہ ہی پینے کو صاف پانی،، ٹرینوں کی ٹینکیاں پانی سے خالی ہو چکی ہیں اور واش رومز غلیظ ہو چکے ہیں۔ بچے، بوڑھے اور خواتین شدید ترین مشکلات کا شکار ہیں جبکہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق مسافروں کی داد رسی کی بجائے لاہور میں بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ ہزارہ ایکسپریس حادثہ کو 29 گھنٹے گزر گئے تاہم ابھی تک ٹریک کو مکمل بحال نہ کیا جا سکا۔ ریلوے حکام کی نااہلی کی وجہ سے ٹریک کو بحال نہ کیا جا سکا۔ لاہور آنے والی ٹرینیں 20 گھنٹے تک تاخیر کا شکار ہیں۔ 5 اگست کو سفر کی غرض سے ٹرین پر بیٹھنے والے ابھی تک اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔ ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے کی جوائنٹ سرٹیفیکیٹ رپورٹ مرتب کر لی گئی جسے لاہور ریلوے ہیڈکوارٹر جمع کرا دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ اس حادثے میں تخریب کاری کا عنصر خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا۔ حادثے کی مرکزی ذمہ داری شعبہ سول اور شعبہ مکینیکل ہے ۔ ٹریک کو آپس میں جوڑنے کے لیے فش پلیٹ سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ جوائنٹ سرٹیفیکیٹ رپورٹ کے مطابق حادثے کی وجہ پٹری کا ٹوٹنا اور فش پلیٹ نہ ہونا تھا۔ ٹرین انجن وہیل اور ٹریک میں خرابی بھی حادثے کی وجہ میں شامل پے۔ دوسری طرف ریلوے شعبہ سول اور شعبہ مکینیکل نے حادثے کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔ دونوں شعبوں نے حادثے کی وجہ ایک دوسرے پہ ڈال دی۔ رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ٹرین انجن کے وہیل ڈیمج پائے گئے ہیں۔ رفاعی ادارے ایدھی کی ایک رپورٹ کے مطابق امسال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران صرف لاہور کے مختلف مقامات پر ٹرین حادثات میں 22 افراد جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں سات خواتین اور 15 مرد شامل ہیں۔ ٹرین تلے کچلے جانے والوں کا مقدمہ کسی تھانے میں درج نہیں ہوا۔ ٹریفک حادثات کے بعد دوسرے نمبر پر پاکستان ریلوے رہا جبکہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی ٹرین حادثات روکنے میں ناکام رہے۔ محمد سدھیر چودھری ہیڈ آف اکنامک افئیرز، پاکستان Muhammad Sudhir Chaudhry Head Of Economic Affairs, Pakistan

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔