’حجاب کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘

’حجاب کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘
نئی دہلی:کرناٹک کی مانڈیہ پری یونیورسٹی میں حجاب میں ملبوس ایک طالبہ مسکان نے آج اپنے طور پر زعفرانی دوپٹہ ہندو انتہا پسندوں کے ایک بڑے ہجوم کا سامنا کیا . بعدازاں اپنے انٹرویو میں مسکان نے کہا کہ وہ پریشان نہیں ہیں اور حجاب پہننے کے اپنے حق کے لیے لڑتی رہیں گی . کرناٹک میں طالبات کے حجاب پہننے کا تنازعہ اب ہر روز نیا روپ اختیار کر رہا ہے۔ منگل کو ایسی ہی کچھ ویڈیوز منظر عام پر آئی تھیں جن میں طلباء کے درمیان پتھراؤ کے واقعات بھی دیکھے گئے تھے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں اسکول کالج کے طلباء کا ایک گروپ اسکوٹی لے کر ایک لڑکی کے خلاف احتجاج کرتے نظر آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ وائرل ویڈیو میں کچھ لوگ حجاب پہنے لڑکی کے گرد جمع ہو کر نعرے لگا رہے ہیں۔ جواب میں باحجاب طالبہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کردیا. لڑکی نے بتایا کہ جن لوگوں نے اسے گھیر ا ان میں کالج کے لوگوں کے علاوہ باہر کے لوگ بھی شامل تھے۔ این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مسکان نے کہا، ’’میں بالکل بھی پریشان نہیں تھی، دراصل ایسا ہوا کہ میں اپنی اسائنمنٹس جمع کروانا چاہتی تھی، اس لیے میں کالج میں داخل ہوئی، لیکن مجھے کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی. کیونکہ میں نے برقع پہن رکھا تھا۔ تاہم میں کسی طرح اندر آئی جس کے بعد ہجوم نے میرے سامنے جئے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دیے، اس کے بعد میں نے اللہ اکبر کے نعرے لگانے شروع کر دیے، ہجوم میں صرف 10 فیصد لڑکے کالج کے تھے اور باقی باہر سے تھے۔ اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ نے میرا ساتھ دیا اور مجھے بھیڑ سے بچایا۔" مسکان نے کہا، "یہ پچھلے ہفتے ہی شروع ہوا تھا۔ ہم ہر وقت برقع اور حجاب پہنتے تھے۔ میں کلاس میں حجاب پہنتی تھی اور برقع اتارتی تھی۔ حجاب ہمارا ایک حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ باہر والوں یہ سب ہنگامہ شروع کیا ہے. پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ ایک مسلمان لڑکی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ میرے ہندو دوستوں نے میرا ساتھ دیا، میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ صبح سے ہر کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔"
واضح رہے کہ کرناٹک میں باحجاب طالبات کو کالج میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی تاہم جب مسلم طلبا نے پوری ریاست میں احتجاج کیا تھا جس کے بعد باحجاب طالبات کو کالج میں داخل ہونے کی اجازت تو مل گئی تاہم انہیں علیحدہ کلاس رومز میں بٹھایا جا رہا ہے۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔