پاکستان کے مشہور تفریحی مقامات مری اور گلیات میں شدید برفانی طوفان کی وجہ سے وہاں گاڑیوں میں پھنسے متعدد سیاح جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طبی ماہرین اس کی وجہ ہائپوتھرمیا قرار دے رہے ہیں۔ آخر ہائیوتھرمیا کیا چیز ہے اور اس سے بچنا کس طرح ممکن ہے۔
طب کی زبان میں انسانی جسم کے درجہ حرارت جب حد سے زیادہ کم ہو جائے تو اسے ہائپوتھرمیا کہتے ہیں۔ اس صورتحال میں جسم تیزی سے اپنی گرمی ختم کرتے ہوئے ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ انسانی جسم کا درجہ حرارت صرف ایک یا دو ڈگری کی کمی پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اگر یہ زیادہ کم ہو جائے تو انسانی جسم پر اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
تاہم شدید ٹھنڈ کی صورت میں یہ یہ دماغی تھرموسٹیٹ بار بار استعمال ہونے سے اپنی صلاحیت ختم کرنا شروع کر دیتا ہے، جبکہ انسانی جسم میں گرمی پیدا کرنے والے سسٹم کی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔
انسانی جسم کے خاص حد سے زیادہ وقت کیلئے شدید سردی میں گرمی پیدا کرنے والا سسٹم کام چھوڑ دیتا ہے، اسی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ہائپوتھرمیا ایک قسم کی طبی ایمرجنسی ہے، اس میں جسم تیزی کیساتھ گرمی کھونا شروع کر دیتا ہے اور درجہ حرارت خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم کا عمومی درجہ حرارت تقریباً 98.6 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ہے، اس کے 95 ڈگری فارن ہائٹ تک گرنے کو ہائپو تھرمیا کہا جاتا ہے۔ جسم کا ٹمپریچر گرنے کی صورت میں اعصابی نظام، دل اور دیگر اعضا کام نہیں کر سکتے، اور اگر بروقت طبی امداد فراہم نہ کیا جائے تو ہائپوتھرمیا نظام تنفس اور دل کی مکمل ناکامی اور بالاخر موت کا باعث بن سکتا ہے۔ ہائپوتھرمیا سے بچنے کی کوئی دوا موجود نہیں، اس کا واحد حل جسم کو جہاں تک ممکن ہو گرم رکھنا ہے۔
انسانی جسم میں موجود تمام سسٹم ایک مربوط طریقے سے کام کرتے ہیں لیکن ہائپوتھرمیا کی صورت میں یہ سب ایک ایک کرکے کام چھوڑ دیتے ہیں۔بہت زیادہ سردی لگنے کی صورت میں ورزش سے بھی جسمانی ٹمپریچر کو کسی حد تک زیادہ کیا جا سکتا ہے لیکن بچوں یا ضعیف افراد کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔جسم کا درجہ حرارت گرتے ہی ہمارا جسم کپکپانا شروع کر دیتا ہے جو سردی کیخلاف جسم کا آٹومیٹک دفاع ہے۔ ہائپوتھرمیا کی علامات میں کانپنے کے علاوہ بڑبڑانا، غیر واضح طریقے سے بولنا، سانس کا آہستہ آنا، کمزور نبض، غنودگی، الجھن یا یادداشت کی کمی وغیرہ شامل ہیں جبکہ بچوں کی جلد کا سرخ اور چمک دار ہو جانا بھی ایک اہم علامت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مری میں پھنسے ہوئے درجنوں افراد کی اموات کیسے ہوئیں؟ تو اس بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں اکثر لوگوں نے ٹھنڈ سے بچنے کیلئے اپنی گاڑیاں سٹارٹ رکھیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند گھنٹوں بعد ہی بیٹریا ڈاؤن ہونے سے گاڑیاں بند ہو گئیں۔ ہیٹر کے بند ہونے کے بعد گاڑی میں گرمی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔
بعض ماہرین کے مطابق شدید برف باری کی صورت میں اکثر گاڑیوں کے ایگزاسٹ بند ہو جاتے ہیں۔ گاڑیوں میں پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ باہر کے بجائے اندر آنا شروع ہو جاتی ہے جس سے گاڑی میں موجود افراد اگر غنودگی میں ہوں تو دم گھٹنے سے ان کی موت بھی موت واقع ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس انعام غنی کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ کاربن مونوآکسائیڈمیں بونہیں ہوتی، اس کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے، کاربن مونو آکسائیڈ جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر گاڑی برف میں پھنس گئی ہے اور انجن چل رہاہے تو کھڑکی ہلکی سی کھولیں، گاڑی کے ایگزاسٹ سائلنسرپائپ سے برف صاف کریں۔
خیال رہے کہ مری میں شدید برفباری اور سیاحوں کے رش کی وجہ سے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی اور 20 سے زائد افراد کی گاڑیوں میں اموات کے بعد سیاحتی مقام کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔