سوات اور گردونواح میں زلزلہ، شدت 4 اعشاریہ 5 ریکارڈ

سوات اور گردونواح میں زلزلہ، شدت 4 اعشاریہ 5 ریکارڈ
خیبر پختونخوا کے علاقے سوات اور گردونواح میں دو بار زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ شدید زلزلے سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا اور وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے گھروں سے نکل آئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدید 4 اعشاریہ 5 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کا مرکز تاجکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ بتایا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایک گھنٹے کے وقفے کے دوران دو بار زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ جس سے لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سوات سمیت دیگر علاقوں میں جمعرات کی رات 10 بجے اور اس کے بعد 10 بج کر اکتالیس منٹ پر زلزلے کے دو بار شدید جھٹکے آئے۔ ریکٹر سکیل پر ان زلزلوں کی شدید 4 اعشاریہ 3 جبکہ دوسرے زلزلے کی شدید 4 اعشاریہ 5 تھی۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی گہرائی 175 کلومیٹر زیر زمین تھی۔ تاحال کسی جانی یا مالی نقصانات کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہے۔ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ریکٹر اسکیل کیا ہے؟ زلزلے کی اقسام کیا ہیں؟ زلزلے میں کیا کرنا چاہیے؟ آئیے آپ کو ان باتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ساؤتھ کیرولائنا یونیورسٹی کے ایک ماہر جان ویڈیل کہتے ہیں کہ زمین کے اندر موجود چٹانی پرتیں مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور جب وہ اپنی جگہ سے کھسکتی ہیں تو ان کے کناروں پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور جب یہ دباؤ ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو وہ زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ زلزلے کے جھٹکوں سے زمین کی سطح پر موجود چیزوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ عمارتیں اور دوسری تنصیبات گر جاتی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ درخت اور بجلی کے پول زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اگر متاثرہ علاقے میں دریا یا جھیلیں ہوں تو ان کی جگہ بدل سکتی ہے۔ پہاڑوں میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ اگر زلزلے کا مرکز سمندر کی تہہ یا ساحلی علاقوں کے قریب ہو تو سمندری طوفان اور سونامی آ سکتے ہیں اور بپھری لہریں ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ ہماری زمین کے بعض حصوں کے نیچے چٹانوں کی پرتیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان میں نسبتاً زیادہ حرکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان علاقوں میں زلزلے بھی کثرت سے آتے ہیں۔ بعض ملک اور علاقے زلزلوں کے زون میں واقع ہیں۔ ان میں نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، جاپان، روس، شمالی امریکہ میں بحرالکاہل کے ساحلی علاقے، وسطی امریکہ، پیرو اور چلی شامل ہیں۔ اسی طرح بحرالکاہل کے کئی حصے بھی ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں زیادہ زلزلے آنے کا خدشہ رہتا ہے۔ ریکٹر سکیل کیا ہے؟ ریکٹر اسکیل ایک پیمانہ ہے جس سے زلزلے کی شدت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ریکٹر اسکیل کے موجد ایک امریکی سائنس دان چارلس ریکٹر ہیں جنہوں نے 1935 میں ایک آلہ متعارف کرایا تھا جس میں ایک سے 10 کے اسکیل پر زلزلے کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ زلزلے کی اقسام زلزلوں کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر چار درجے سے کم شدت کے زلزلوں کو معمولی یا کمزور نوعیت کا زلزلہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ چار سے زیادہ اور چھ سے کم درجے کا زلزلہ درمیانی شدت کا زلزلہ کہلاتا ہے، جس سے تھوڑا بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، جیسے چینی کے برتن اور پلیٹیں وغیرہ ٹوٹ سکتی ہیں۔ جب کہ ریکٹر اسکیل پر 6 سے 7 شدت کے زلزلے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جب زلزلے کی شدت 8 کے ہندسے بڑھتی ہے تو وہ تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عمارتیں ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں، سڑکیں اور ریلوے لائنیں ٹوٹ پھوٹ سکتی ہیں۔ زلزلے میں کیا کرنا چاہیے؟ زلزلے کی صورت میں فوری طور پر عمارت سے باہر کھلی جگہ پر چلے جانا چاہیے۔ اگر باہر نکلنا ممکن نہ ہو تو میز یا اسی نوعیت کی کسی دوسری چیز کے نیچے پناہ لینی چاہیے تاکہ آپ خود کو چھت یا دیواروں سے ممکنہ طور پر گرنے والے ملبے سے بچا سکیں۔ زلزلے کے دوران کھڑکیوں، بھاری فرنیچر اور بڑے آلات وغیرہ سے دور رہیں۔ جدید تاریخ کے چند تباہ کن زلزلے 26 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں 9 اعشاریہ 1 شدت کے زلزلے میں دو لاکھ 27 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 12 جنوری 2010 کو ہیٹی میں 7 درجے کے زلزلے نے دو لاکھ 22 ہزار سے زیادہ زندگیوں کے چراغ گل کر دیے تھے۔ 12 مئی 2008 میں چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان میں 7 اعشاریہ 8 قوت کے زلزلے میں 87 ہزار افراد ہلاک اور پونے چار لاکھ زخمی ہو گئے تھے۔ 8 اکتوبر 2005 میں پاکستان کے شمال اور متنازع کشمیر کے علاقوں میں 7 اعشاریہ 6 طاقت کے زلزلے میں 73 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔