’افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘

’افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘
اسلام آباد ( پبلک نیوز) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان، ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے، گزشتہ چالیس سالوں سے افغانستان میں جاری جنگ و جدل سے شدید متاثر ہوا۔ افغانستان کا امن و استحکام ہمارے مفاد میں ہے۔ امریکہ اور جرمنی کی میزبانی میں افغانستان کے حوالے سے منعقدہ ورچوئل اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے وزارتی رابطہ اجلاس میں اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے منعقدہ اس بروقت اجلاس میں مدعو کرنے پر سیکرٹری آف اسٹیٹ، انتھونی بلنکن اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا شکر گزار ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے حوالے سے صدر جوبائیڈن کے 31 اگست 2021 کو دیئے گئے پیغام کو سراہتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ آج افغانستان کی صورتحال یکسر بدل چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں حاصل کی گئی سماجی و اقتصادی ترقی کے فوائد کو محفوظ بنانے کے لیے تحرک کیا جائے گا۔ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے افغانستان کے حوالے سے علاقائی و عالمی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغانستان کا قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے اس صورت حال سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اب میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ افغانستان، میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ مزید کہا کہ افغانستان میں قحط جیسی صورتحال، خوراک کی کمی اور بڑھتے ہوئے افراط زر کے حوالے سے رپورٹس ہم سب کے سامنے ہیں۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد افغان مہاجرین کی جس یلغار کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا وہ بظاہر ٹل گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشی بحران اس خطرے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ افغانستان کے قریبی ہمسایوں بالخصوص پاکستان کے لیے یہ خدشات کئی گنا زیادہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانوں کی معاشی معاونت کو یقینی بنایا جائے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے بارڈرز، افغانوں کے لیے کھلے ہیں لیکن دنیا کو ہماری بساط کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے سے ہی دستاویزی اور غیر دستاویزی طور پر 4 ملین افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو کورونا جیسی عالمی وبا سے نبرد آزما ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہمارے وسائل مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عالمی برادری کو افغان شہریوں کو ترجیح دینا ہو گی۔ افغانستان کو اس کے غیر ملکی ذخائر اور عالمی مالیاتی اداروں تک رسائی نہ دینے سے ان کے مسائل کا تدارک نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ ہم معاشی مشکلات کے باعث افغانوں کو ہجرت کرنے کا موقع فراہم نہ کریں جو بصورتِ دیگر اپنے ملک میں اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ اپنے خطاب میں واضح کیا کہ پاکستان نے کابل سے مختلف ممالک کے شہریوں کو انخلاء میں بھرپور معاونت فراہم کی۔ پاکستان نے امریکہ کی درخواست پر بیرونی ممالک میں منتقلی کے خواہش مند افغانوں کے "ٹرانزٹ" کے بندوبست کیے۔ ہمیں توقع ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے خواہشمند افغانوں اور غیرملکیوں کے محفوظ انخلاء کے وعدے کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ وزارتی رابطہ اجلاس میں انھوں نے بتایا کہ کابل ہوائی اڈے کا فعال رہنا ضروری ہے۔ اس طرح ہمارے باڈرز پر موجود دباؤ میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ اجلاس 11 ستمبر کے حملوں کو بیس سال مکمل ہونے سے قبل منعقد ہو رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے مشترکہ مفاد کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان سے بڑھ کر کوئی ملک ایسا نہیں جو چاہتا ہو کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کی پھر سے آماجگاہ نہ بنے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی اور ہمارے ملک کو 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہمیں تشویش ہے کہ کہیں القاعدہ، آئی ایس آئی ایس اور تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمینِ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ صورت حال افغانستان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ صرف ایسی مضبوط حکومت ہی افغانستان پر اپنی عملداری قائم کر سکتی ہے اور عالمی برادری کے ساتھ، ان دہشت گردوں کو جگہ نہ دینے کے حوالے سے معاونت کر سکتی ہے جو ہمارے ممالک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لہذا ضروری ہے ایسا سیاسی خلاء پیدا نہ ہونے دیا جائے جس میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو۔ عالمی برادری کی جانب سے افغانستان کی مستقل معاونت ہی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہماری بہترین سرمایہ کاری شمار ہو سکتی ہے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔