وفاقی بجٹ: اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا، اسحاق ڈار

وفاقی بجٹ: اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا، اسحاق ڈار
اسلام آ باد: وزیر خزانہ اسحاق نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا، ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے گا، روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ اور سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے، موجودہ حکومت کے مشکل فیصلو کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا، زر مبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کے نو ویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے،ہماری کوشش ہے کہ پروگرام کا نوواں جائزہ رواں ماہ میں مکمل ہو جائے. اسحاق ڈار نے کہاکہ عوام کو ریلیف دینے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ کو 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا ہے، عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی کیلئیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم کی قیمت میں 2 مرتبہ کمی کی ، صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، معیشت میں پہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 2022 سے 12 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے ادا کئے جا چکے ہیں، تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں،بیرونی ادائیگیوں کے باوجود ملکی ذرمبادلہ کے 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں، سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبے میں 1 اعشایہ 5 فیسڈ کی گروتھ ہوئی، ہماری دیہی معیشت میں 15 سو سے 2ہزار ارب اضافی منتقل ہوئے ۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے روز مرہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر 26 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا۔ ملکی دفاع کے لیے 1804 روپے کا بجٹ مختص کیا جا رہا ہے،سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 714 ارب روپے بجٹ مختص ہے، پینشن کی مد کی 761 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے مالی سال 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کئے جائیں گے، معیاری بیجوں کے درآمد پر تمام ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں، کمبائنڈ ہارویسٹرز کی درآمد پر تمام محصولات اور ڈیوٹیز سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا، اس مقصد کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، درآمدی یوریا پر سبسڈی کے لئے 6 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں، دس ارب روپے کی خطیر رقم کم شرح سود پر کسانوں کو قرضے فراہم کرنے کے لئے مختص کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بجلی گیس اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کے لیے 1074 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ،وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1150 ارب روپے مختص، صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کا حجم 1559 ارب روپے مختص، واٹر سیکٹر کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھا گیا ہے۔

آئی ٹی برآمدات:

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فری لانسرز کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25فیصد کی رعایتی شرح لاگو کی گئی ہے، چوبیس ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا، آٹی شعبے کو ایس ایم ایز کا درجہ دیا جا رہا ہے ، اسلام آباد کی حدود میں میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو پندرہ فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا، اگلے مالی سال میں میں پچاس ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو پروفیشنل ٹریننگ دی جائے گی۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام :

انہوں نے کہا کہ آئیندہ تین سال تک تعمیراتی شعبے میں آمدنی پر دس فیصد یا 50 لاکھ روپے کی چھوٹ دی جا رہی ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے چار سو پچاس ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، بےنظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ ساٹھ لاکھ بچوں سے بڑھا کر تقریبا 83 لاکھ بچوں تک کیا جائے گا ، 92 ہزار طالب علموں کو بے نظیر انڈرگریجویٹ اسکالرشپ دیا جائے گا جس کے لیے چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لئے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کےلئے آٹے چاول چینی دال اور گھی پر سبسڈی دی جائے گی، مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

زراعت:

اسحا ق ڈار نے کہا کہ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب کردیا گیا،زرعی ٹیوب ویلز کو کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے تیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، ایگرو انڈسٹری کو رعایتی قرض کی فراہمی کے لئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کے لیے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔

عوام کے لیے بڑی خوشخبری:

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا، ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے گا، روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں ڈیجیٹل ادائیگی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ریسٹورنٹ سروسز پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرنے پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

Foreign Domestic Worker رکھنے پر ودہولڈنگ ٹیکس :

انہوں نے کہا کہ اس وقت کم و بیش 3 ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں مددگار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ۔ اوسطاً ہر گھریلو مددگار کو سالانہ 6000 $US تک تنخواہ دی جاتی ہے۔ گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر ایک Tax Year میں 2 لاکھ روپے کی شرح سے WHT عائد کیا جارہا ہے۔

Foreign Currency کے Outflow کی حوصلہ شکنی:

فارن ایکسچینج ریزرو کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والے لوپ ہولز بھی بند کرنا ہوں گے۔ اس لئے ڈیبیٹ کارڈس/ بینکنگ چینل کریڈٹ کے Outflow کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے فائلر فارن کرنسی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح %1 سے بڑھا کر 5 کی جارہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح %10 ہوگی۔

سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لیے ریلیف اقدامات: سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں1 سے 16 گریڈ تک 35 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے اور گریڈ 17-22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کے لئے ڈیلی الاؤنس اور مائلیج الاؤنس میں اضافے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 10 ہزار سے بڑھاکر بارہ ہزار روپے کردی گئی، اسلام آباد کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کر دیا گیا، ای او بی آئی کی پنشن کو 85 سو سے بڑھا کر دس ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔