اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ محفوظ سنا دیا. اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا اور کیس پر فوری سماعت کی تھی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا جو سنا دیا گیا ہے اور عمران خان کی گرفتاری قانونی کے مطابق قرار دے دی گئی ہے۔ عدالت نے رجسٹرار ہائی کورٹ کو ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا اور سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ انکوائری کرکے 16 مئی تک رپورٹ جمع کرائیں۔ اس سے قبل ڈی جی نیب عرفان بیگ ، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے ۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یکم مئی کو وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے گرفتاری کیلئے کس کو کہا ؟ ڈپٹی پراسیکوٹر نیب نے کہاکہ ہم نے وزارت داخلہ کو گرفتاری کی درخواست کی ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کیا احاطہ عدالت سے گرفتار کیا جا سکتا ؟ یہ تو عدالت کی خودمختاری کا سوال ہے ، وارنٹ تھے اسکی تعمیل کا طریقہ کار دیکھنے کی ضرورت ہے کیا یہ ٹھیک تھا؟ ۔ فواد چوہدری روسٹرم پر آ گئے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ خبریں آ رہی مجھے بھی گرفتار کیا جا رہا ہے ،جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے یہ کیس سن لوں بعد میں آپکے معاملے کو بھی دیکھتے ہیں ۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 30 اپریل کو خبر چھپی جس پر نیب کو انکوائری سے انویسٹگیشن میں تبدیلی کا لیٹر مانگا ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وارنٹ یکم مئی کو جاری ہوا اور نوٹس 2 مئی کو گیا ، چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم توشہ خانہ کے ساتھ بائیو میٹرک اس کیس میں بھی کروانے جا رہے تھے ، ہم نے آج القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست آج دینا تھی ۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ہم عدالت انصاف کیلئے آتے ، مار کھانے نہیں آتے ، آج ہمیں اور ہمارے عملے کو مار پڑی ہے ، انہوں نے گرفتار کرنا ہوتا بھیرہ میں کر لیتے، موٹروے پر کر لیتے ، ہم اپنی درخواستوں پر بائیو میٹرک کیلئے جارہے تھے ، یہ تاک لگائے بیٹھے تھے ، آج ججز یعنی آپ کا گیٹ کیسے کھول لیا گیا ، آج یہ عدالت کے وقار کا معاملہ ہے، یہ ڈائری برانچ کے کمرے کا دروازہ کھول کر کھڑکیاں توڑ کر داخل ہوئے ، ہماری ڈیمانڈ ہے یہ جیسے ہائیکورٹ سے لیکر گئے ویسے ہی یہاں واپس لیکر آئیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ اس کیس میں عمر ندیم تفتیشی ہیں اور ڈی جی نیب راولپنڈی سپر ویژن کر رہے ، ہم نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے سیکرٹری داخلہ کو خط لکھا ۔ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان میں کہا کہ وارنٹ گرفتاری سے متعلق ہمیں مکمل آگاہی تھی ۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کے متعلق فیصلہ ابھی جاری کروں گا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی جی نیب اور پراسیکیورٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کیا تھا۔ دوران سماعت آئی جی اسلام آباد اور ڈپٹی اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کو ہائی کورٹ سے گرفتار نہیں کیا گیا، نیب نے اسلام آباد پولیس کو وارنٹ گرفتاری بھیجاتھا۔ جس پر چیف جسٹس بولے کہ آئی جی صاحب سب کچھ قانون کے مطابق ہونا چاہئیے، اگر کچھ خلاف قانون ہوا تو سب کے خلاف کارروائی کروں گا۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ رینجرز وزارت دفاع کے انڈر ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں، میرے سامنے وکلا زخمی حالت میں ہیں، مجھے انہیں سننے دیں۔ بعد ازاں عدات نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کرتے ہوئے ڈی جی نیب اور پراسیکیورٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کیا۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو 15 منٹ میں عدالت طلب کیا۔جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ تحمل کا مظاہرہ کر رہا ، وزیر اعظم اور وزراء کیخلاف کارروائی کرنا پڑی تو کرونگا۔ واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان دو مقدمات میں ضمانت کیلئے عدالت آ رہے تھے، عمران خان ابھی کمرہ عدالت تک نہیں پہنچے تھے کہ رینجرز اہلکاروں نے انہیں گرفتار کر لیا، سابق وزیراعظم کو نیب راولپنڈی کے دفتر منتقل کیا جا رہا ہے۔ قومی احتساب بیورو ( نیب) نے چیئرمین پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا ہے، نیب حکام کے پاس عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔