موجودہ عالمی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے

موجودہ عالمی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے
اسلام آباد: (اے پی پی) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کسی کی پارٹی نہ بننے کا بہترین موقف اختیار کیا، استحصال پر مبنی موجودہ عالمی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اے پی پی کے مطابق صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو میں امریکی دعوت کے باوجود جمہوریت پر ورچوئل سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ صدر مملکت نے افغانستان، عراق، شام اور بعض دیگر ممالک میں ہونے والی تباہی کا حوالہ دیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ امریکہ اور مغرب اپنے ممالک میں کوئی جنگ نہیں چاہتے لیکن دوسرے خطوں بالخصوص اسلامی ممالک کو جنگوں اور تنازعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو سراہتے ہوئے کہ پاکستان نے جوہری ڈیٹرنس حاصل کیا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ استحصالی عالمی نظام جس میں ہندوستان جیسی بڑی معیشتوں کو (عالمی طاقتوں کی جانب سے) نوازا گیا، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر نے مزید کہا کہ جس طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوستی ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت سے تھی، یہ دوستی جاری وساری رہ سکتی ہے۔ دوہرے معیار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ جسے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق کی فکر نہیں تھی، اس نے ملک سے نکلنے کے فوراً بعد انسانی حقوق کی فکر شروع کر دی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ذریعے ترقی اور خوشحالی حاصل کرکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صف اول کی ریاست بن کر ابھر سکتا ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ بہت سے معاملات میں عدالتی فیصلوں میں تاخیر دیکھنے میں آتی ہے، ملک میں تیز رفتار انصاف کے نظام کے ساتھ ساتھ موثر پراسیکیوشن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ چونکہ وہ ملک کے پانچ محتسب دفاتر کے فیصلوں کے بعد اپیلیں نمٹاتے ہیں، اس لیے وہ عام طور پر اس طرح کی اپیلوں کا ایک یا دو دن میں فیصلہ کرتے ہیں تاکہ جلد انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سوال پر کہ کیا عوام بدعنوان عناصر کے احتساب کے متعلق پی ٹی آئی کے بیانیے کو قبول کریں گے؟ صدر نے مثبت جواب دیا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایسی مہمات اور بیانیے کے چیمپئن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا وژن کوئی نیا خیال نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین سمیت دیگر رہنمائوں نے 1990ء کی دہائی میں پارٹی کے اندر اپنے مباحثوں اور مذاکروں کے دوران اس وژن کو تشکیل دیا اور اس پر اتفاق کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ مختلف ایشوز پر سوچ میں تبدیلی کو یوٹرن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بدلی ہوئی صورتحال یا ماحول کی وجہ سے مقصد کے حصول کے لیے سمت بدلنا منطق ہے۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ایسی مذہبی جماعتوں کو سیاسی دھارے میں لا کر اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے بڑی تعداد میں آرڈیننس جاری کئے جانے کے متعلق سوال پر صدر نے کہا کہ جب پارلیمنٹ اپنا کام نہیں کرے گی تو حکومت کو آرڈیننس لانا پڑیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت قانون اور آئین کے تحت پابند ہے کہ وہ حکومت کی خواہش پر آرڈیننس کا اجراء کرے تاہم موجودہ دور حکومت میں سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کم آرڈیننس جاری کیے گئے ہیں۔

Watch Live Public News