تلمبہ ( ویب ڈیسک ) ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے کہا ہے کہ میرے تو پچھلے تیس سال سے بیان سارے حقوق العباد پر ہیں، میں نے سوسائٹی میں انسانیت کو ابھارنے کی کوشش کی ہے، میرے ذمہ ہے دعوت دینا ، اس کی عملداری تو نہ میرے ہاتھ میں ہے نہ میرے ذمے ہے، ہماری تبلیغ کا ایک اصول ہے کہ ہم مذمت نہیں کرتے ، مثبت بات کرتے ہیں، منفی بات نہیں کرتے، اچھائی کو اتنا بیان کریں کہ برائی اس میں دب جائے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے عالم دین مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اللہ سے دوری کا نتیجہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو ان کا حق نہیں ملتا ، حکمرانوں کو جاکر نصیحت کرنا تو ہمارے ذمے ہے، ان سے مفاد اٹھانا سودے بازی کی بات ہے، وسیم سجاد صاحب صدر پاکستان تھے ان سے لیکر موجودہ وزیر اعظم تک سوائے بینظیر بھٹو شہید کے میری سب سے ملاقات ہوئی ہے، میں سب کیلئے پیغام محبت اور نصیحت لے کر گیا ہوں، حکمرانوں کو بات سمجھانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب میری عمران خان سے بحیثیت وزیر اعظم پہلی ملاقات ہوئی ، ویسے تو ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہماری کافی عرصے سے سلام دعا ہے،وزیر اعظم نے مجھے بلایا تھا تو مجھ سے کہنے لگے کہ مولانا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میری نوجوان نسل اپنے نبی ﷺ کے ساتھ جڑ جائے کیونکہ میرے اندر جو تبدیلی آئی وہ اپنے نبی ﷺ کی زندگی کو پڑھ کر آئی،میرا جی چاہتا ہے کہ میری نئی نسل اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ جڑ جائے۔ مولانا طارق جمیل نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کا مزید احوال بتاتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مولانا طارق جمیل کو کہا ” اس کیلئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھیجوں ، آپ کے بیان کراؤں“، یہ بات مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی، وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں وہ ایک الگ بات ہے لیکن اس بندے کی سوچ سے میں بہت متاثر ہوا ۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ وزیر اعظم کے ماضی کو میں ڈسکس نہیں کرنا چاہتا ، آج کے لحاظ سے جو ان کی سوچ ہے اور جو ان کی گفتگو کا انداز ہے وہ آپ خود محسوس کر رہے ہیں کہ کس طرح وہ اللہ کو بیچ میں لاتے ہیں،کس طرح صبح سے شام تک وہ بندہ لگا ہوا ہے اور کوئی اس کی اولاد ایسی نہیں جو پیچھے کوئی مفاد اٹھانے والی ہو، میں اس کی کوئی صفائی پیش نہیں کرتاکہ وہ جنید بغدادی ہے لیکن مقابلتاً میں نے اس کو بہت اچھا پایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 72 سال کا کچرا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے پاس ٹیم بھی کوئی مضبوط نہیں ہے، وہ اکیلا اپنی جان سے لڑ رہا ہے، اتنی جلدی تو تبدیلی نظر نہیں آ سکتی ، میں کوئی 10,12 مدرسے چلا رہا ہوں، اور ہمارے ہاں مدارس کا نظام ہے چندہ، جب کورونا آیا اور لوگوں کے مالی حالات خراب ہوگئے تو میں نے اپنی ٹیم سے کہا کہ میں اب چندہ نہیں مانگوں گا، اگر آ پ کے پاس چندہ پرآرہا ہے کہ چلاؤ مدرسہ، نہیں آرہا ہے تو بند کر دو، لیکن ان دنوں میں کسی سے کہوں کہ مدرسے کیلئے پیسے دو تو یہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مشورہ ہوا کہ مدرسہ کا کوئی آمدن کا مستقل ذریعہ بنا دیا جائے، اس برینڈ کے بنانے کا مقصد کوئی پیسہ بنانا نہیں بلکہ وہ مدارس جو میں چلا رہا ہوں ان کو خود کفیل کرنا ہے، صرف اس وجہ سے یہ برینڈ بنایا ہے، اس میں باقی دوست بھی ہیں جو منافع لیں گے مگر اس میں بہت بڑا منافع مدارس کو جائے گا۔