بھارت میں  مرغی کے گوشت، پانی سے پھیلنے والا انوکھا مرض پھوٹ پڑا

بھارت میں  مرغی کے گوشت، پانی سے پھیلنے والا انوکھا مرض پھوٹ پڑا

ویب ڈیسک : بھارت میں مرغی کے گوشت اور پانی سے پھیلنے والا انوکھا مرض ’’ جی بی ایس ’’ پھوٹ پڑا۔ ممبئی میں گلین بار سنڈروم سے  ایک اورہلاکت، مریضوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی ۔

 ممبئی کے قریب  پونے شہر میں جنوری سے لے کر اب تک ایسے 160 کیسز منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ اس بیماری سے اب تک مبینہ طور پر پانچ اموات بھی ہو چکی ہیں۔ ائر اسپتال میں داخل 53 سال کے ایک مریض نے جی بی ایس کی وجہ سے دم توڑ دیا۔ وہ کچھ دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھا۔ 

اس وقت بھی اس بیماری سے متاثرہ 48 افراد انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیرِ علاج ہیں جبکہ 21 افراد وینٹیلیٹر پر موجود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جی بی ایس سے متاثر ہونے والے 38 افراد صحتیات ہو کر اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔

جی بی ایس کی علامات

جی بی ایس کی ابتدائی علامات اکثر ہاتھ، پاؤں کا سُن ہو جانا یا ان میں سنسناہٹ ہونا ہوتی ہیں۔ اس کے بعد اکثر مریضوں کو اپنے پٹھوں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے جس کے سبب انھیں اپنی ہڈیوں کو حرکت دینے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بیماری دو سے چار ہفتے کے دوران شدت اختیار کرتی ہے اور ہاتھ، پاؤں پر ہی سب سے زیادہ اثر کرتی ہے۔

یہ ایک نایاب مرض ہے۔  مریض کو کچھ نگلنے یا سانس لینے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ 

جی بی ایس کے سنگین معاملوں میں مریض پوری طرح سے لقوہ زدہ بھی ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر نوجوانوں اور مردوں میں اس مرض کے ہونے کے آثار ہیں، حالانکہ سبھی عمر کے لوگ اسے متاثر ہو سکتے ہیں۔

جی بی ایس کیسے پھیلتا ہے؟

دنیا بھر میں جی بی ایس کے سامنے آنے والے کیسز کی اکثریت کا تعلق بغیر پکے مرغی کے گوشت سے جوڑا جاتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس پانی کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔

دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی اموات کی شرح تین سے 13 فیصد کے درمیان ہے۔ مریضوں کے صحتیاب ہونے کا انحصار بیماری کی شدت اور انھیں ملنے والے علاج کے معیار پر ہوتا ہے۔

جی بی ایس اور کیمپیلوبیکٹر جیجونی وائرس

پونے میں جی بی ایس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار کیمپیلوبیکٹر جیجونی نامی جرثومے کو قرار دیا جا رہا ہے جو دنیا بھر میں کھانے کی اشیا سے لوگوں کے جسم میں منتقل ہونے والی بیماری جی بی ایس کا سب سے بڑا سبب ہے۔

اس جرثومے اور جی بی ایس کے درمیان تعلق 1990 کی دہائی میں چین کے دیہی علاقوں میں سامنے آیا تھا۔

کیمپیلوبیکٹر جیجونی دیہی چین میں مرغیوں میں بہت عام تھا اور ملک میں جی بی ایس کے کیسز مون سون کے موسم کے بعد ہی سامنے آتے تھے کیونکہ اس موسم میں بطخیں، مرغیاں اور بچے بارش کے پانی میں ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا میں جی بی ایس کے کیسز منظرِ عام پر آئے ہوں۔ بنگلور میں واقع نیشنل انسٹٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنسز سے منسلک مونوجیت دیبناتھ اور مدھو نگپا نے سنہ 2014 سے لے کر 2019 تک اس بیماری سے متاثر ہونے والے 150 مریضوں پر تحقیق کی۔

ان کی تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ جی بی ایس سے متاثر ہونے والے 79 فیصد مریض اس سے قبل بھی دیگر انفیکشنز میں مبتلا رہ چکے تھے اور ان میں ایک تہائی افراد کے جسموں میں کیمپیلوبیکٹر جیجونی نامی جرثومہ بھی موجود تھا۔

حالیہ دنوں میں اس جرثومے سے تعلق رکھنے والے وائرسز دنیا بھر میں پھیلتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ سنہ 2023 کے پہلے سات ماہ میں پیرو میں جی بی ایس سے 200 افراد متاثر اور چار افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد وہاں کی حکومت نے ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔

جی بی ایس ایک لاعلاج مرض تشخیص بھی مشکل

ماہرین کے مطابق جن ممالک میں صفائی ستھرائی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے وہاں کیمپیلوبیکٹر جیجونی کے سبب جی بی ایس کی وبا کم ہی پھیلتی ہے۔ ان ممالک میں اس وائرس کے پھیلنے کا سبب دیگر سانس کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

سنہ 2015 میں برازیل میں بھی جی بی ایس کے کیسز سامنے آئے تھے۔ سنڈروم سے متاثر ہونے والے افراد کی اکثریت پہلے ہی زیکا وائرس کی لپیٹ میں تھے۔

ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی ویکسین کے سبب جی بی ایس پھیلا ہو لیکن سنہ 2021 میں جی بی ایس کے کچھ کیسز کورونا وائرس کی ویکسین کی وجہ سے پھیلے تھے۔

تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو جی بی ایس آسانی سے نہیں لگتا۔ کیمپیلوبیکٹر جیجونی کی الگ قسم ہے جو انسانی جسم میں موجود خلیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہاں پریشانی کی بات یہ ہے کہ اب تک دنیا میں جی بی ایس کا کوئی علاج موجود نہیں۔

جی بی ایس میں مبتلا مریضوں کے جسم کیمپیلوبیکٹر جیجونی جرثومے کو روکنے کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز اکثر اس بیماری کی شدت کو کم کرنے کے لیے ’پلازما ایکسچینج‘ کا سہارا لیتے ہیں، اس کا مقصد خون سے منفی جراثیموں سے پاک کرنا ہوتا ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جی بی ایس کی تشخیص کسی ایک ٹیسٹ کے ذریعے ممکن نہیں۔

احتیاط

  پانی اُبال کر پییں، تازہ کھانا کھائیں اور ’باسی اور ادھ پکا مرغی اور بکرے کا گوشت نہ کھائیں۔‘

Watch Live Public News