لاہور ( پبلک نیوز) رومانوی شاعری ہو یا مزاحمتی انداز، جو لکھا امرہو گیا۔ احمد فراز کا کلام آج بھی تروتازہ ہے۔ لاکھوں دلوں میں گھر کرنے والے عظیم شاعر احمد فراز کا 91واں یوم ولادت آج منایا جا رہا ہے۔ احمد فراز 12جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ پشاور میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ تنہا تنہا شائع ہوا تو وہ بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے الگ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کرلی۔ ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ درد آشوب چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے آدم جی ادبی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبورا جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ احمد فراز نے 1966 ء میں آدم جی ادبی ایوارڈ اور 1990ء میں اباسین ایوارڈ حاصل کیا۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں فراق گورکھ پوری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر کینڈا نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا۔ جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں ٹاٹا ایوارڈ ملا۔ انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ بھارت میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع احمد فراز کی غزل ہے۔ بہاولپور میں بھی احمد فراز فن اور شخصیت کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔ ان کی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں تراجم ہو چکے ہیں۔ احمد فراز نے ایک زمانے میں فوج میں ملازمت کی کوشش کی تھی۔ اپنی شاعری کے زمانہ عروج میں فوج میں آمرانہ روش اور اس کے سیاسی کردار کے خلاف شعر کہنے کے سبب کافی شہرت پائی۔ احمد فراز 25 اگست 2008 میں وفات پا گئے۔