ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کا محفوظ فیصلہ8-5 کی اکثریت سے سناتے ہوئےپاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ فیصلہ 8-5 کی اکثریت کا ہے۔ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اس لئے ان سے کہوں گا کہ وہ فیصلہ سنائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا جاتا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی آئین کے خلاف ہے۔دیگر جماعتوں کو ملنے والی مخصوص نشستیں واپس لے لی گئیں ہیں۔پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہےاور رہے گی انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کی اہل قرار دیا جاتا ہے۔ مخصوص نشستوں کو دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فقہ کوچیلنج نہیں کیا جاسکتا،عدت کا کیس نہیں بنتا،جج افضل مجوکا
عدالت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور تحریک انصاف کے ارکان کو آزاد ظاہر کر کے غلط کیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں اور الیکشن کمیشن ان 80 ارکان اسمبلی کے تناسب سے، جنھوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں خود کو پی ٹی آئی کا امیدوار ظاہر کیا تھا، تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے جبکہ باقی اراکین اپنی وابستگی میں کے حوالے سے 15 روز میں الیکشن کمیشن میں اپنا حلف نامہ جمع کروائیں کہ وہ کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کی فہرست دوبارہ مرتب کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
اقلیتی ججوں نے پشاور ہائیکورٹ کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کامیاب امیدواروں کی فہرست اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے، 27 جون کو الیکشن کمیشن نے ایک آرڈر پیش کیا، اس دستاویز میں کہا گیا کہ کچھ کاغذات نامزدگی ایسے تھے جن کی پارٹی وابستگی تھی، وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں، انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا ۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں، سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے، پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی حقدار ہے، وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی امیدوار قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں تحریک انصاف کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کردی گئی۔
دوسری جانب امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی، اس کے علاوہ عدالت عظمٰی کے باہر قیدیوں والی وین بھی پہنچادی گئی تھی۔
مخصوص نشستوں کا کیس،کب کیا ہوا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے فل کورٹ بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید، جسٹس اظہر حسن رضوی، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ نے 14 مارچ کو کالعدم قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرے۔
عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی درخواست میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کی تھیں۔
مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کر دیا تھا۔
اس سے قبل 3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا تھا۔