10 ستمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے: گرفتار پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کا مطالبہ

10 ستمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے: گرفتار پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کا مطالبہ

ویب ڈیسک:قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا، شیخ وقاص اکرم نے مطالبہ کیا کہ 10 ستمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے، زین قریشی بولے جو کچھ 10 ستمبر کو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا،میں نے لابیز کھلوانے کا آپ سے کہا آپ کچھ نہ کرسکے،مجھے افسوس ہوا کہ آپ کو بے بس پایا ۔

تفصیلات کےمطابق قومی اسمبلی اجلاس میں   گرفتار پی ٹی آئی رکن اسمبلی شیخ وقاص اکرم نے کہا پارلیمنٹ کے دروازے پر رات 12 بجے تالے لگا دئیے گئے،ہمیں کہا گیا حامد رضا، شیخ وقاص اور زین قریشی کی ضرورت ہے،باقی جو ایم این ایز پکڑے گئے وہ کسی ایف آئی آر میں مطلوب نہ تھے،یہ ایم این ایز اپنے اپنے لاجز واپس جاچکے تھے
جب پتہ چلا کہ بھائی مشکل میں ہیں یہ وہاں آئے،ہمارے لیے پارلیمنٹ کے دروازے نہ کھولے گئے،کہا گیا کہ سی ڈی اے کے ماتحت ہے، سی ڈی اے کی کیا اوقات ہے؟
زین قریشی کو کچھ ادویات چاہیے تھیں ان کا ڈرائیور گیا لیکن واپس نہ آیا،ہم پارٹی فیصلے کے تحت اندر محفوظ رہے،3 بجے میرے محافظ اندر آئے اور انہوں نے بتایا کہ نقاب پوش آئے ہیں،ہم اس غلط فہمی میں تھے کہ پارلیمنٹ کے اندر کوئی نہیں آسکتا،ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سب الگ الگ ہوجائیں،میں اور زین قریشی چوتھے فلور پر پہنچ گئے،ایک روم کا دروازہ کھلا تھا ہم اندر گئے ساتھ ہی بجلی بند ہوگئی،ہم نے سوچا روشنی میں خود ہی یہ بھاگ جائیں گے،تھوڑی دیر بعد وہ چابیاں لیکر آگئے،قریشی صاحب کو کھانسی آگئی،انہوں نے کہا باہر نکلتے ہو یا دروازہ توڑیں۔
جناب میری طرف دیکھ کر مسکرائے،مجھے کہا شیخ صاحب آگے لگو ،تین چار بابو انگلش میں بولے ہم نے بھی انگلش میں جواب دیا،انہوں نے بجلی دوبارہ بند کروائی،انہوں نے ہمارے موبائل لینے کے لیے ہماری تلاشی لی،کابینہ ڈویژن کے دروازے پر اسلام آباد پولیس موجود تھی،وہاں بحث یہ چل نکلی کہ ان کو لیکر کون جائے گا؟

 شیخ وقاص اکرم نے کہا پہلی دفعہ اسلام آباد پولیس کو دیکھ کر خوشی ہوئی،خواہش ہوئی کہ ہمیں اسلام آباد پولیس ہی لے جائے،ایس ایچ او تگڑا تھا اس نے ہمیں گاڑی سے نکال لیا،ہمیں اسلام آباد پولیس نے تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا، پی ٹی آئی رہنما نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ   10 ستمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے۔
میرے بیٹے نے سکول میں اپنے ایک دوست کو کہا،میرے باپ کو تمہارے باپ نے جیل میں ڈال دیا،ہمیں آپ کا فخر ہوگا اگر آپ اس واقعہ کے ذمہ داران کی نشادہی کریں گے۔

زین قریشی نے کہا میری نظر میں پارلیمنٹ میرا گھر ہے،عوام نے ہمیں اور آپ کو چن کر یہاں بھیجا ،ہمیں امید ہے آپ انصاف کریں گے،اسپیکر صاحب میرا آپ کے ساتھ احترام کا رشتہ ہے،اس ہاؤس میں دس 12 سال کی عمر سے والد کے ساتھ آ رہا ہوں ،ہمارا ماننا ہے کہ اللہ کی عدالت کے بعد سب سے بڑی عدالت عوام کی ہے،جو کچھ 10 ستمبر کو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔

اراکین کی تذلیل کی گئی ، ہراساں کیا گیا، اس ہاؤس کے تقدس کو پامال کیا گیا ،میرے والد حق و سچ کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ایک سال سے اڈیالہ میں ہیں ،اس ایوان کے اندر میری ذات کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،نہ گرفتاریوں سے ڈر ہے نہ پرچوں سے ڈر ہے،جو تحقیقاتی رپورٹ آپ کے سامنے آئے اسے پبلک کیا جائے ،مطلوب شیخ وقاص اکرم، حامد رضا اور زین قریشی تھا۔

گرفتار رکن ملک عامر ڈوگر نے کہا ہم نے سمجھا کہ باہر پولیس کسی احتجاج کے لئے ہے،میں نے باہر پولیس سے کہا کہ شیرافضل مروت کو کس بدتمیزی سے پکڑا، سپیکر صاحب میں نے آپ سے رابطہ کیا آپ نے بے بسی کا مظاہرہ کیا ،میں نے آپ سے کہا ہمیں اپوزیشن لیڈر چیمبر کھلوادیں ،میں نے لابیز کھلوانے کا آپ سے کہا آپ کچھ نہ کرسکے،مجھے افسوس ہوا کہ آپ کو بے بس پایا ۔
میں سروس برانچ میں تھا کہ مجھے پکڑا بدتمیزی کی گئی ،سید نسیم علی شاہ کو میرے سامنے مسجد سے گریبان سے پکڑ کر باہر لایا جارہا تھا،سپیکر صاحب وہ اس اوپر کے ہال تک آگئے ،آپ تیاری کریں کہ کل یہی نقاب پوش آپ کو اس سپیکر چیئر سے اٹھاکر لے جائیں ،تحقیقاتی کمیٹی ان پر مشتمل بنائی گئی ہے جن پر الزام ہے ،اگر پارلیمان کی کمیٹی نے تحقیقات کرنی ہیں تو سربراہی اپوزیشن کے رکن کو دیں کسی وزیر کو نہ دیں ۔

سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ سب کی باتوں سے لگتا ہے کہ شاید میں ہی ذمہ دار ہوں،مجھے اندر جاکر سوچنا چاہیے کہ مجھے بھی یہاں رہنا چاہیے یا نہیں؟ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Watch Live Public News