لندن ( ویب ڈیسک ) پوری دنیا اس وقت سوشل میڈیا کے رنگ میں رنگ چکی ہے مگر یہ سوال بہت سے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ اب ڈیجیٹل انقلاب کے بعد وہ کون سا ٹیکنالوجی انقلاب ہو گا جو آنیوالے کئی سالوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔ اس ڈیجیٹل انقلاب کے خدوخال واضح ہونے لگے ہیں اور یہ انقلاب میٹا ورس کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
ٹیکنالوجی نے تین ادووار دیکھے۔ پہلا دور وہ تھا جب کمپیوٹر آیا اور اس کے استعمال سے انسانوں کیلئے اپنی روزمرہ زندگی میں آسانی پیدا ہوئی، اس کے بعد انٹرنیٹ کا دور آیا اور اب سوشل میڈیا کا دور آیا ہے جس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے مگر اب سوشل میڈیا کے بعد وہ کون سا انقلاب ہو گا جو نوع انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس سلسلہ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ
میٹا ورس ہی وہ انقلاب ہے جو اب سوشل میڈیا اور
موبائل فون کے بعد آ سکتا ہے۔
نئے تکنیکی دور میں
میٹا ورس ، یعنی ورچوئل دنیا کو نئے ممکنہ
ٹیکنالوجی انقلاب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، میٹاورس دنیا ایک ایسا تصور ہے ، ایک ایسی ورچوئل
ٹیکنالوجی کی دنیا ہے جس میں کسی کمپنی میں آپ ورچوئل ٹیم کو پوری کمپنی چلانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔
میٹا ورس کا مرکزی خیال ارنسٹ کلین کے ناول میں 2011 میں تفصیل کے ساتھ سامنے آچکا ہے جس کا مرکزی کردار ایک ورچوئل ٹرپل ورلڈ میں فرار ہو چکا ہے۔
اسی طرح
میٹا ورس کے موضوع پر 2018 میں آنے والی سائی فائی فلم ”ریڈی پلیئر ون“ بھی بہت اہم ہے ، اس بارے میں ٹیک کی کئی کمپنیوں کا ماننا ہے کہ یہ کوئی آنیوالی دنیا ہے،
میٹا ورس کی اصطلاح 1992 میں سنو کریش نامی ناول میں پہلی بار تراشی گئی تھی۔ آسان الفاظ میں ہم
میٹا ورس کو بیان کرنے کی کوشش کریں تو ایک ورچوئل دنیا ہے جس میں لوگ اپنے Avatar کے ذریعے کام کر سکتے ہیں اور زندگی کے بنیادی امور تشکیل دے سکتے ہیں، یہ دراصل ایک انٹرایکٹو ورچوئل دنیا ہو سکتی ہے جس میں ہم گیمز، مہم جوئی، خریداری حتیٰ کہ فلم کے کرداروں میں بھی ڈھل سکتے ہیں۔