واضح رہے کہ اس سے قبل پریس بریفنگ میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخارنے اس بات کی تردید کی کہ امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے، انہوں نے کہا کہ امریکا نے فوجی اڈے مانگے اور نہ ہم نے دیے، اگر مانگتے بھی تو پاک فوج کا وہی موقف ہوتا جو وزیراعظم کا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا کوئی ذکر نہیں، فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھی اور نہ اب ہوگی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا، ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور خفیہ ایجنسیوں سمیت تمام ادارے بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، خود دیکھ لیں کہ قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے، ہم پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے نہ توسیع مانگی اور نہ قبول کریں گے، وہ واضح کرچکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، آرمی چیف رواں سال 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے، آرمی چیف نہ ہی مدت میں توسیع طلب کررہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔میری نظر میں @OfficialDGISPR کا بیان نیشنل سیکیورٹی کونسل کی پریس ریلیز کی ہی توثیق ہے، سیکیورٹی کونسل نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں لفظ سازش استعمال نہیں ہوا اب اہم ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے جو اس مداخلت کی تحقیقات کرے ، یہ مداخلت کہاں سے ہوئ
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) April 14, 2022
سابق وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ ایبسو لوٹلی ناٹ پر پٔاک فوج کے ترجمان نے بالکل حقیقت بیان کی ہے، ایک انٹرویو میں عمران خان سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ امریکا کو اڈے دیں گے تو جواب دیا گیا کہ نہیں دیں گے، فوج کی اور ہماری پوزیشن ایک ہی ہے، ہم اپنی افواج کی بہت عزت کرتے ہیں. انکا کہنا تھا کہ فوج سے متعلق جو سیاسی سوالات ہیں ان کا جواب نہیں دے سکتا. دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس مداخلت کے کردار کون تھے؟ کون کون کہاں ملاقاتوں میں شامل ہوا، مداخلت کی نوعیت کیا تھی؟ کیا شہباز شریف بیرونی مداخلت کے نتیجے میں وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھائے گئے؟ لوکل ہینڈلرزکون تھے؟ یہ تمام سوال ایک طاقتور جوڈیشل کمیشن کے سامنے آنے چاہئیں جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرے. سماجی رابطوںکی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ میری نظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان نیشنل سیکیورٹی کونسل کی پریس ریلیز کی ہی توثیق ہے، سیکیورٹی کونسل نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں لفظ سازش استعمال نہیں ہوا اب اہم ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے جو اس مداخلت کی تحقیقات کرے ، یہ مداخلت کہاں سے ہوئی.