سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بیرونی مداخلت کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کا 86 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ تحریر کیا ہے۔ تحریری فیصلہ کے ساتھ جسٹس مظہر عالم خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اضافی نوٹ بھی جاری کئے گئے ہیں۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے سپریم کورٹ متحرک ہوئی۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی وجہ سے وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت نے اسمبلی توڑی جس پر اپوزیشن اور عوام کے بنیادی آئینی حقوق متاثر ہوئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس کی کارروائی کے دوران بیرونی دھمکی آمیز مراسلہ (سائفر) عدالت کو نہیں دکھایا گیا۔ سیکورٹی کونسل اعلامیے میں اپوزیشن جماعتوں کے بیرون طاقتوں کے ساتھ مل کر عدم اعتماد لانے کا ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سائفر سپریم کورٹ یا کسی اپوزیشن جماعت کے رکن کو نہیں دکھایا گیا۔ عدالت کو عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بیرون مداخلت کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ بیرونی سازش میں شامل کسی شخص کا نام بھی حتمی طور پر سامنے نہیں لایا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ عدم شواہد کی بنیاد پر سائفر کے نیشنل سیکیورٹی سے منسلک ہونے کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سائفر پر از خود نوٹس لینے کے پی ٹی آئی کے مطالبہ کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جسٹس مظہر عالم خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 5 کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ پارلیمنٹیرین فیصلہ کریں کہ آرٹیکل 6 کی کارروائی پر عمل کرکے مستقبل میں ایسی صورتحال کیلئے دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا بند کرنا ہے۔ اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی نام نہاد رولنگ بدنیتی پر مشتمل تھی۔ سپیکر کے بجائے ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی کیوں چلائی؟ اس کا جواز نہیں بتایا گیا۔ جسٹس مظہر عالم نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے پہلے سے تیار کردہ رولنگ پڑھ کر سنائی۔ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی قانونی خلاف ورزی پر عدالتیں جائزہ لے سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو جائے تو اس پر ووٹنگ کرانا لازم ہے۔ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ رولنگ کے زریعے عدم اعتماد کی تحریک کو رد کرے۔ پارلیمنٹ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ووٹنگ کے حق سے محروم کرنا آئینی انحراف ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے جو کیا وہ پارلیمانی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہونے کے دائرے میں نہیں آتا۔ کسی شخص کی خواہش پر ملک میں عام انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں انتخابات کب کرانے ہیں یہ پارلیمنٹ اجتماعی فیصلہ کرے۔ ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا مطالبہ نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ عام انتخابات صرف اسمبلی مدت پوری ہونے پر ہی کرائے جا سکتے ہیں۔ عدالتوں کو نظریہ ضرورت سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ماضی میں غیر جمہوری قوتوں نے نظریہ ضرورت کا غلط استعمال کیا۔ نظریہ ضرورت کو زندہ کرنے سے ہمیشہ جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے وزیراعظم کے مفاد کا تحفظ کیا.