لاہور ہائیکورٹ میں صحافی عمران ریاض کو ریاست مخالف مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کے خلاف پٹیشن کی سماعت، عدالت نے عمران ریاض کو 19 جولائی کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے حکومت پنجاب کی پٹیشن پر سماعت کی۔ حکومت پنجاب کے وکیل خرم خان نے دلائل دئیے اور موقف اختیار کیا کہ عمران ریاض کو ریاست مخالف مقدمے میں جسمانی ریمانڈ کیلئے مجسٹریٹ کےسامنے پیش کیا گیا۔ قانون کے تحت ڈیوٹی جوڈیشل مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ دینے کا پابند ہے۔ پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ جسمانی ریمانڈ کے لئے لائے گئے ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے ازخود اختیار کے تحت ڈسچارج کیا۔ قانون میں جوڈیشل مجسٹریٹ کو کسی طرح ازخود اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کیا جو الزامات ایف آئی آر میں بیان کئے گئے وہ کچھ ویڈیو میں موجود ہیں؟ کیا جوڈیشل مجسٹریٹ نے ویڈیو عدالت میں دیکھی۔ اس پر خرم خان ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے معزز عدالت سے مودبانہ کہا کہ جی جوڈیشل مجسٹریٹ نے ویڈیو کو دیکھا۔ ملزم کا ریمانڈ مزید مواد کے لئے لازم تھا۔ ملزم سے لیپ ٹاپ لے کر ویڈیوز برآمد کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ اتوار کو ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے جسمانی ریمانڈ کے لئے پیش کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سال 2005 میں تو ہفتے اور اتوار کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالتیں نہیں لگتی تھیں۔ اس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اب تو رات کو بھی عدالتیں لگتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریمانڈ پیپر کے مطابق مدعی نے ویڈیو ڈائون لوڈ کرکے یو ایس بی تفتیشی افسر کو دی۔ تفتیشی افسر نے یو ایس بی کو فرانزک سائنس لیبارٹری بھجوایا۔ لاہور ہائیکورٹ نے پوچھا کہ جس یو ایس بی کو عدالت یا آپ نے نہیں دیکھا اس پر مقدمہ کیسے بنتا ہے؟ بغیر شواہد اور ثبوت مقدمہ کا کیا جواز ہے؟