ویب ڈیسک :پاک افغان سرحدی شہر چمن میں مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سرحدی گزرگاہوں پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف جاری احتجاج میں پشتون قوم پرست جماعتوں نے بھی شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
چمن میں انسداد پولیو مہم کی روک تھام اور سرکاری دفاتر پر حملوں کے الزام میں گرفتار پانچ قائدین کا پولیس نے سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔جب کہ مظاہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر آپریشن کے دوران گرفتار درجنوں مظاہرین میں سے بیشتر کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔
یادرہے پاک افغان سرحد پر پاسپورٹ کی شرط کے خلاف سرحدی قبائل اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں نے گزشتہ سال اکتوبر میں احتجاجی دھرنا شروع کیا تھا۔ چند دن قبل دھرنے کے شرکاء اور فورسز میں جھڑپوں کے دوران درجنون افراد زخمی ہوگئے تھے جن میں سکیورٹی اہلکا ر بھی شامل تھے۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ چمن میں گرفتار دھرنا مظاہرین کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا،''احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن قانون میں ہاتھ لینے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ چمن میں گزشتہ دنوں جن افراد کو گرفتار کیا گیا دراصل ان کی وجہ سے شہرمیں قیام امن کی صورتحال خراب ہوئی تھی۔ مظاہرین نے بلاوجہ احتجاج کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔
دوسری طرف چمن دھرنے میں شریک قبائلی رہنماء رازق خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ریاستی اہلکاروں نے ان کے پرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے خلاف ضابطہ اقدامات کئے جس سے حالات خراب ہوئے۔
انہوں نے کہا، ''ہم یہاں کئی ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ پاک افغان سرحدی علاقوں کے ہزاروں لوگ حکومتی اقدامات کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ہیں۔ ریاست اپنے مفادات کے لئے عوامی مفاد کو کچل رہی ہے۔ احتجاجی دھرنے و ختم کرنے کے لیے ریاستی ادارے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ احتجاج کے دوران بے گناہ لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں۔ مقامی لوگ اپنے حقوق کے لیے اب آواز بھی بلند نہیں کرسکتے۔ ''
رازق خان کا کہنا تھا کہ احتجاجی دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا اور مظاہرین اپنے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
مظاہرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔ صوبائی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مظاہرین نے حکومتی کمیٹی کو گرفتار رہنماوں کی فوری رہائی، ان کے خلاف درج مقدمات ختم کرنے سمیت دیگر مطالبات پیش کئے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کہتے ہیں بعض عناصر نے سیاسی مقاصد کے لیے چمن میں شورش پیدا کی ہے۔
انہوں نے کہا،''سرحدی گرزگاہوں کے لئے پاسپورٹ اور ویزا کی شرائط نافذکرنے کا فیصلہ نیشنل ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ سال کیا گیا تھا۔ یہ وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے اور اسے زبردستی کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ احتجاج کے دوران شہریوں کو پرتشدد واقعات کے لیے منظم سازش کے تحت اکسایا گیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران حملے کئے ہیں ان میں کئی ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کا چمن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا،"صوبائی پارلیمانی کمیٹی نے مظاہرین سے اب تک جو مذاکرات کئے ہیں وہ بے نتیجہ رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے مظاہرین کے جائز مطالبات کے حل کی یقین دہائی کرائی ہے لیکن وہ سرحد پر پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں جو کہ صرف وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے ''
خالق اچکزئی کا کہنا تھا کہ 'ون ڈاکومنٹ رجیم' کا فیصلہ صرف چمن کے لیے نہیں بلکہ بادینی بارڈر سمیت دیگر سرحدی گزرگاہوں کے لیے بھی قابل عمل ہے۔
چمن میں جاری احتجاجی دھرنے میں پشتون قوم پرست جماعت، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن بھی شامل ہو گئے ہیں۔