پبلک نیوز: افغان طالبان کے مابین اختلافات،افغانستان میں بڑھتے معاشی اور سکیورٹی مسائل کے باعث سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
فو کس نیوز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں عیدالفطر کے موقع پر سخت گیر طالبان اور اعتدال پسند طالبان کی جانب سے جاری کئے گئے پیغامات میں یہ بات واضح طور پر نظر آئی ہے
فوکس نیوز کا اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں اعتدال پسند طالبان سخت پالیسیوں کو ختم کرکے دنیا کو مثبت پیغام دیکر بیرونی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
عیدالفطر پر افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سےجاری کردہ بیان میں انہوں نےخود ساختہ اسلامی قوانین کا دفاع اور عالمی برادری کی ان پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا۔
اس کے برعکس افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ شائستگی کو محلوظ خاطر رکھیں اور ایسے رویےسے اجتناب کریں جس سے افغان عوام ناخوش ہوں۔
افغان طالبان کی جانب سے 2021 میں قبضے کے بعد سے ان کی حکمرانی بالخصوص خواتین کو متاثر کرنے والی پابندیوں نے بڑے پیمانے پر مذمت کو جنم دیا ہے اور ان کی بین الاقوامی تنہائی کو مزید بڑھا دیاہے۔
قندھار میں طالبان کے مرکز میں واقع عیدگاہ مسجد میں افغان سپریم لیڈر کے بدھ کے خطبہ عید میں ماضی کی طرح سخت لہجہ اور گفتگو شامل تھی۔
اپنے خطبے میں ہیبت اللہ اخونزادہ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو ہم سےکوئی مسئلہ ہے تو ہم اسے حل کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اپنے اصولوں یا اسلام پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، میں شریعت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
اس کے برعکس سراج الدین حقانی کا عید پیغام دری اور پشتو میں تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عوام اور حکام کے درمیان دراڑ پیدا کرنے سے گریز کیا جائے، سراج الدین حقانی کا پیغام ہیبت اللہ اخونزادہ سے یکسر مختلف تھا جس میں انہوں نے ملک کو درپیش چیلنجز کا حوالہ دیا۔
اس حوالے سے ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ حقانی، نرم رخ دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے، طالبان کی "سفاکانہ طرزِ حکمرانی" سے آگاہ وسیع تر افغان عوام سے اعتماد اور حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کوگل مین نے مزیدکہا کہ حقانی نیٹ ورک بین الاقوامی برادری سے سرمایہ کاری اور امداد کا خواہاں ہے، طالبان کا سماجی ایجنڈا، خاص طور پر خواتین کے بارے میں ان کی سخت گیر پالیسیاں، مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان نے خواتین پر چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم، ملازمتوں اور پارکوں جیسی عوامی جگہوں پر جانے کی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
افغان طالبان نے جسمانی سزا اور سرعام پھانسیوں کو نافذ کیا ہے، جس کے مناظر 1990 کی دہائی کےآخر میں طالبان کے پہلے دور حکومت کے دوران دیکھے گئے تھے۔
طالبان کی ان سخت گیر پالیسیوں کے باعث بیرونی امدادی نہ ملنے سے معیشت اب زوال کا شکار ہے اور افغان قوم بڑے پیمانے پر خشک سالی، بھوک اور بے گھر ہونے کا سامنا کر رہی ہے۔
پاکستانی صحافی اور مصنف احمد رشید کے مطابق طالبان کے اندر ایسے اعتدال پسند عناصر ہیں جو خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن وہ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے وہ اپنا وقت گزار رہے ہیں،سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے بلاشبہ رٹ قائم کر رکھی ہے تاہم ان کے پاس لوگوں کے بیشتر سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔
سراج الدین حقانی اس سے قبل بھی طالبان قیادت اور ان کے فیصلہ سازی کے عمل کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس پر ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ان کی سرزنش کی گئی تھی۔
طالبان کی سخت گیر اور خود ساختہ شریعت کی وجہ سے اب تک کسی بھی ملک نے ان کو تسلیم نہیں کیا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔
افغان طالبان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جو بات دنیا ان کے بارے میں کہتی آرہی ہے اب وہ آواز ان کے اندر سے آرہی ہے ، اگر انہوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو آنے والا وقت ان کیلئے مشکل ہو جائے گا۔