نئی دہلی: (ویب ڈیسک) یوکرین پر حملے کے بعد امریکا نے روس پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ اس صورتحال میں انڈیا روسی ہتھیاروں کی رسد سے متعلق شدید تذبذب کا شکار ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انڈٰین وزیراعظم نریندر مودی کی روس اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی کوششیں چین کے ساتھ مستقبل میں سرحدی تنازع کے دوبارہ ابھرنے کی صورت میں مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ بھارت کوشش کر رہا ہے کہ وہ دفاعی سازوسامان امریکا، اسرائیل، فرانس اور دوسرے ممالک سے امپورٹ کرے لیکن اسے روس کے جنگی سازوسامان پر انحصار سے نکلنے میں بھی 20 سال لگ جائیں گے۔ دوسری جانب امریکا نے ابھی تک ٹیکنالوجی کے تبادلے کے لئے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں سینئیر فیلو سوشانت سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا کی بحریہ کے پاس روسی ساخت کا ایک ایئر کرافٹ کیریئر بحری جہاز ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے اکثر فائٹر جیٹ روسی ہیں اور اس کے 90 فیصد ٹینک بھی روسی ہیں۔ بھارت ناصرف اپنا دفاعی اور جنگی اسلحہ روس سے منگواتا ہے بلکہ اس کے اپ گریڈ کے لئے بھی اس پر انحصار کرتا ہے۔ انڈیا کے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا کا غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہندوستان ڈیفنس سیکٹر میں خود انحصاری کی کوشش کر رہا ہے، وہیں اس کی جدیدیت کے لئے اس کا روس پر انحصار بھی ہے۔ روس وہ واحد ملک ہے جس نے انڈیا کو جوہری آبدوز دیَ کیا کوئی اور ملک ایسا اقدام اٹھائے گا؟ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2016ء سے 2020ء کے دوران انڈیا نے روس سے تقریباً 49 فیصد دفاعی سازوسامان منگوایا جبکہ فرانس سے 18 فیصد اور اسرائیل سے 13 فیصد سامان منگوایا گیا۔ 90ء کی دہائی کے اوائل تک انڈین فوج کے 70 فیصد، ائیر فورس کے 80 فیصد اور بحریہ کے 85 ہتھیار سوویت روس سے درآمد کئے جاتے تھے۔ انڈیا اب اپنی دفاعی ضروریات کے لئے روس پر انحصار کو کم کر رہا ہے اور امریکا، اسرائیل، فرانس اور اٹلی سے بھی دفاعی ساز و سامان منگوا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے اقوام متحدہ میں روس کی جارحیت کے خلاف قرارداد میں ووٹ نہ ڈالنے پر انڈیا کے ساتھ حل پذیر اختلافات ہیں۔ نریندر مودی نے روس کے خلاف ووٹ ڈالنے یا پیوتن کو یوکرین کے معاملے پر تنقید کا نشانہ بنانے سے اب تک گریز کیا ہے۔ انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ شیام سارن نے چونکا دینے والے بلاگ پوسٹ میں لکھا ہے کہ انڈیا کے لئے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہوگا۔ اگر امریکا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے لئے روس ایک بہت بڑا خطرہ بڑا ہے تو وہ چین کے قریب آ سکتا ہے۔ اسے اگر کھلے لفظوں میں کہیں تو ایشیا میں چین کی اجارہ داری کو قبول کرکے یورپ میں اپنی اجارہ داری بچا لے۔ وائس آف امریکا کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا 60 فیصد دفاعی سازوسامان روس سے درآمد کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی اس وقت مشکلات کا شکار ہے جس کا چین کے ساتھ دو برس سے لداخ میں سرحدی تنازع چل رہا ہے جہاں ہزاروں فوجی آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ 2020 میں سرحد پر ایک تنازع کے دوران بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ بشکریہ وائس آف امریکا