ایک طرف ملکی سٹاک مارکیٹ میں مندی کے شدید بادل چھائے ہوئے ہیں تو وہیں امریکی ڈالر بھی 194 روپے کی سطح عبور کر چکا ہے۔ آج کاروباری ہفتے کے آغاز پر ہنڈرڈ انڈیکس میں 1000 سے زائد پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاروبار کے آغاز پر ہنڈرڈ انڈیکس 43 ہزار 486 اعشاریہ 46 پوائنٹس پر تھا۔ لیکن جلد ہی اس میں 806 اعشاریہ 95 پوائنٹس کی کمی نظر آئی۔ صبح 10 بجے تک انڈیکس 1000 سے زائد پوائنٹس کی کمی کے بعد 42 ہزار 424 اعشاریہ .48 پر آگیا جبکہ ہنڈرڈ 100 انڈیکس میں دو اعشاریہ چوالیس پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔ دوسری جانب امریکی ڈالر ملکی تاریخ کی نئی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ آج کاروباری ہفتے کے آغاز پر ہی ڈالر 194 روپے ہو گیا تھا۔ گذشتہ مہینے 11 اپریل کو شہباز شریف کی حکومت اقتدار میں آئی تو ڈالر کی قیمت 182 اعشاریہ 3 روپے تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک پاکستانی کرنسی 11 روپے 40 پیسے کی قدر کھو چکی ہے۔ آج کاروباری ہفتے کے پہلے دن ڈالر کی 194 روپے 30 پیسے میں فروخت ہوتی رہی۔ ڈالر مسلسل 5 دن سے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ 10 اپریل کو انٹربینک میں ڈالر کی قیمت 188 روپے 66 پیسے، بدھ کو 190 روپے 90 پیسے، جمعرات کو 192 روپے سے زائد جبکہ کاروباری ہفتے کے آخری روز 193 روپے 10 پیسے پر رہی تھی۔ تاہم سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق کاروباری ہفتے کے شروع میں ڈالر 192 روپے 53 پیسے پر بند ہوا تھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یکم جولائی 2021ء کو رواں مالی سال شروعات کے بعد سے ڈالر کی قدر 18 روپے 17 پیسے بڑھی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ درآمدی بلوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایکسپورٹ میں کمی سے منسلک ہے اور اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کو اس وقت شدید تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ دوسری جانب کرنسی ڈیلروں کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب مارکیٹ میں روپے کی قدر کم ہونے کی اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں تاخیر بھی اس کا بنیادی سبب ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری امپورٹس کو روکے جبکہ ایکسپورٹر کو برآمد کے ذریعے ریونیو حاصل کرنے کا پابند کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ایسا اقدام اٹھائی ہے تو ڈالر کی قدر میں 180 روپے تک کمی بھی ہو سکتی ہے۔