آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملکی حالات نہیں بدلیں گے، ڈاکٹر حفیظ پاشا

آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملکی حالات نہیں بدلیں گے، ڈاکٹر حفیظ پاشا

(ویب ڈیسک ) سدھیر چودھری : سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا لاہور چیمبر آف کامرس میں تاجروں و صنعت کاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک آمدن میں اضافہ اور ایکسپورٹ کا حجم نہیں بڑھایا جاتا،، آئی ایم ایف کے پروگرام سے ملکی حالات نہیں بدلیں گے۔

 انہوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد 2 کروڑ ہو چکی ہے جبکہ 12 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو ساڑھے بارہ ہزار ارب جبکہ امسال 8 ہزار 5 سو ارب سود  کی واپسی کرنا ہو گی۔

 سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ جی ڈی پی میں 22 فی صد حصہ رکھنا والا زرعی شعبہ کے جاگیردار جی ڈی پی کا صرف  ایک فی صد ٹیکس دیتے ہیں۔ ملکی جاگیردار ایک ہزار ارب روپے سالانہ کماتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف نیشنل ہائی وے اتھارٹی سالانہ 168 ارب روپے نقصان کر رہی ہے۔ 1500 ارب روپے اشرافیہ کھا رہا ہے اور 450 ارب بے نظیر انکم سپورٹ کے لوگوں کو دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2 کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں جو بم بنتے جا رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایسے قرضے ادا کئے جو اس نے لئے بھی نہیں تھے،  ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے 4 ہزار ارب روپے ٹیکسوں اور ایکسپورٹ سے نکالنا ہوں گے۔ اس وقت افراط زر کی شرح 35 سے 40 فی صد ہے۔  زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر ہیں۔  کھانے پینے کی اشیاء میں 50 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ کرونہ کے دوران بے روزگاری  7 فی صد تھی جو اب ساڑھے دس فی صد ہے۔ انہوں نے کہا کہ 90 لاکھ مزدور بے روزگار ہیں۔

دوسال کے دوران غربت 35 فی صد سے بڑھ کر 45 فی صد ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے برا وقت اس وقت چل رہا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 15 سال سے ایکسپورٹ کی شرح نمو صرف دو فی صد ہے۔ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ڈھائی سے تین فی صد گر گئی ہے جو پہلے 10 فی صد تھی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان بننے سے 65 سال تک کل قرضہ 65 ارب ڈالر تھا تاہم گزشتہ 12 سال میں 70 ارب ڈالر قرضہ بڑھا۔ سالانہ آبادی اڑھائی صد اور قرضے 6 ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے بڑھ رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے پر ٹیکسوں کا پانچ گنا زائد بوجھ  ہے جبکہ سروسز سیکٹر پر صرف 5 فی صد بوجھ ہے۔ پاکستان میں پراپرٹی کی ویلیو 600 ارب ڈالر ہے۔ کراچی سے 6 ارب روپے ٹیکس ملتا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ پاور سیکٹر کو پیداواری صلاحیت کی مد 800 ارب سالانہ دئیے جا رہے ہیں۔بجلی تقسیم کرنے والی  کمپنیاں 24 فی صد لاسز کر رہی ہیں۔ کچھ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے لاسز 40 فی صد ہیں۔

ہیڈ اکنامک افئیرز