سموگ پھیلانے والوں کیخلاف گھیرا تنگ، دفعہ 144 نافذ

سموگ پھیلانے والوں کیخلاف گھیرا تنگ، دفعہ 144 نافذ
لاہور: (ویب ڈیسک) سموگ پر قابو پانے کیلئے پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے سے گریز کریں ورنہ انھیں قید وبند اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بھی پنجاب حکومت نے سموگ کے خطرے کے پیش نظر صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ سموگ سے بچاؤ کیلئے فصلوں کی باقیات، کوڑا کرکٹ جلانے اور فضائی آلودگی کا سبب بننے والی صنعتوں اور گاڑیوں کیخلاف کارروائی ہوگی۔ یہ ہدایات چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کے زیر صدارت اجلاس کے دوران جاری کی گئی تھیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری نے کہا تھا کہ سموگ سے بچاؤ کیلئے اسے پیدا کرنے والے عوامل کو روکنا، احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور آگاہی بڑھانا ازحد ضروری ہے۔ سموگ پر قابو پانے کیلئے حکومت ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔ سٹیل ملوں اور فیکٹریوں میں غیر معیاری ایندھن کے استعمال کے خاتمے اور فصلوں کی باقیات اور کوڑے کرکٹ جلانے پر پابندی پر عملدر آمد یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام متعلقہ محکمے سموگ کی روک تھام کیلئے جاری کی گئی گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کریں، اس سلسلے میں کوئی غفلت یا کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ شہری سموگ کی روک تھام کیلئے حکومت کی کوششوں کا ساتھ دیں۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ سموگ سے بچاؤ کیلئے صرف زِگ زیگ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے بھٹوں کو کام جاری رکھنے کی اجازت ہوگی اور حکومتی ہدایات پر عمل نہ کرنیوالے بھٹہ مالکان کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ خیال رہے کہ پاکستان میں موسم سرما کے ساتھ ایک بار پھر سموگ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سابق حکومت کی کوششوں سے فضائی آلودگی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا تھا۔ لیکن رواں سال ایک بار پھر یہ آلودگی سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں بالخصوص پنجاب میں سموگ کی بڑھتی ہوئی یہ شدت موجودہ حکومت کی غیر سنجیدگی کا پتا دے رہی ہے۔ دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میں بھی فصلوں کو آگ لگانے سے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا میں فضائی آلودگی میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ ملک میں اس بار سموگ بڑھنے کی بڑی وجہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف ،مؤثر اقدامات کا نہ ہونا ہے۔ حکومتی ادارے کبھی موسم اور کبھی کسانوں کی جانب سے کٹائی کے بعد فصلوں کو آگ لگانے کا انجام قرار دیتے ہیں، تو کبھی اسے بھارتی کسانوں اور بھارتی حکومت کا "خفیہ ہتھیار" قرار دے کر عوام کی نظریں حکومتی نااہلیوں سے موڑنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ زہریلے دھوئیں گردوغبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا ءمیں تحلیل ہونے والی آلودگی کو سموگ کہا جاتا ہے۔ سموگ کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں، جس میں سلفورس سموگ اور فوٹو کیمیکل سموگ شامل ہیں۔ سلفورس سموگ کو لندن سموگ اور فوٹو کیمیکل کو لاس اینجلس سموگ کہتے ہیں۔ دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950ء کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکا کو پہلی بار صنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں سموگ کے مسئلے نے 2015ء میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں سموگ اکتوبر سے جنوری تک کسی بھی وقت وارد ہو سکتی ہے اور اس کی شدت 10 سے 25 دن تک طویل ہو سکتی ہے اور فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال سموگ کی وجہ سے ناصرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔ دوسری جانب سموگ کی روک تھام نہ ہونے کےخلاف کیس کی سماعت آج ہوگی۔ عدالت نے وائس چیئرمین سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمیٹی لاہور کو جواب کیلئے مہلت دے رکھی ہے۔ جسٹس شاہد کریم کیس کی سماعت کرینگے۔ ماحولیاتی کمیشن کے نمائندے کمال حیدر نے سموگ کا سبب بننے والوں کے خلاف رپورٹ عدالت پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب میں 4087 بھٹوں کی انسپکشن کی گئی۔ سموگ کا باعث بننے والے 250 بھٹوں کو سیل کرکے دو کروڑ 75 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ 772 مقدمات درج کرکے 22افراد کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سموگ کا باعث بننے والی 5201 گاڑیوں کووارننگ ، گاڑیوں کو 38 لاکھ سے زائد اور سموگ کنٹرول ڈیوائسز نصب نہ کرنے والی 1970 فیکڑیوں کی انسپکشن کی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والے 186 صنعتی یونٹس سیل کر دئیے گئے ہیں۔