عمران خان چانسلر کاانتخاب لڑنےکیلئے کیوں متحرک؟وجہ سامنے آگئی

عمران خان چانسلر کاانتخاب لڑنےکیلئے کیوں متحرک؟وجہ سامنے آگئی
کیپشن: عمران خان چانسلر کاانتخاب لڑنےکیلئے کیوں متحرک؟وجہ سامنے آگئی

ویب ڈیسک : اڈیالہ جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان ایک نئے انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں لیکن یہ الیکشن سیاسی عہدے کے لیے نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی کے چانسلر کا ہے۔
 بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ ایسی خبریں کافی دیر سے گردش میں تھیں کہ عمران خان آکسفرڈ چانسلر کے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں تاہم باقاعدہ طور پر ان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ 2کیس کیا ہے؟

تجزیہ کاروں کا  کہنا  ہے کہ اگر عمران خان منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہو گی جس کے سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کا چانسلر کیسے منتخب  ہو تاہے؟
اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10 سال کے لیے ہوگی تاہم یہ ایک ’سیریمونیئل‘ یعنی اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔
تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار اہم ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ آکسفرڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔
نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔
عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو ’کونووکیشن‘ کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔
یونیورسٹی کے مطابق اب دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائے گی، اور ووٹنگ کا عمل 28 اکتوبر سے شروع ہوگا۔
10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوگا۔ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں موجودہ طالبعلم، یونیورسٹی ملازمین یا کسی سیاسی عہدے کے امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔ یاد رہے کہ چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
  عالمی شہرت یافتہ پاکستانی’’آکسنز’’
آکسفرڈ یونیورسٹی کے سابق طلبا کو ’’آکسنز ’’کہا جاتا ہے ۔ پاکستانی آکسنز میں عمران خان کے علاوہ  پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری ہیں۔
عمران خان نے 1972 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج (Keble College) میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔ اس دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور عمران خان کے مطابق ان کے درمیان دوستی بھی تھی۔
71 سالہ عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا ذکر برطانیہ کی اس سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل آکسفرڈ یونیورسٹی نے اپنی ’فیمس اوکسونیئنز‘ کی فہرست میں فخر سے کیا ہے۔
اس فہرست میں ان مشہور شخصیات کے نام شامل ہیں جنھوں نے یہاں سے گریجویشن کی یا درس دیا، اور کسی نہ کسی شعبے میں بین الاقوامی شہرت حاصل کر کے اپنا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں ثبت کیا۔
ان میں 28 برطانوی وزرائے اعظم، کم سے کم 30 بین الاقوامی لیڈر، 55 نوبیل انعام یافتگان اور 120 اولمپک میڈل جیتنے والے شامل ہیں۔
  عمران خان اور یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ
عمران خان دسمبر 2005 سے نومبر 2014 تک برطانیہ کی یونیورسٹی آف بریڈفرڈ کے چانسلر رہے ہیں۔
یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔
عمران خان جب اس عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر برائن کینٹر، نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’وہ یونیورسٹی کے لیے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلبہ کے لیے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔‘
عمران خان آکسفرڈ کے چانسلر بنے تو کیا ہوگا؟
عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ سابقہ تجربے، یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے دیرینہ تعلق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی فلاح کے کام اور کرکٹ کی دنیا میں شہرت انھیں چانسلرشِپ کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی تنازع پر لکھی جانے والی کتاب ’پولٹیکل کنفلیکٹ ان پاکستان‘ کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ آکسفرڈ چانسلر ایک اعزازی قسم کا عہدہ سمجھا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بہت شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے قبل عمران خان ایک برطانوی یونیورسٹی کے چانسلر رہ بھی چکے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم کے مطابق ’ عمران خان کے لیے پہلے بھی دو تین بار اس عہدے کے لیے کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ان حالات میں اگر عمران خان کو آکسفرڈ جیسی یونیورسٹی کی چانسلرشپ مل جاتی ہے تو پھر یہ ان کے لیے بہت ہمدردی پیدا ہو گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر کسی بھی حکومت کے لیے انھیں روکنا ریاست مخالف اقدام تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر وسیم کے مطابق عمران خان کے لیے باعزت طور پر یہ ملک سے نکلنے کا بھی ایک اچھا موقع ہوگا۔
سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کی رائے میں ’اگر پاکستانی حکام نے عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد بھی ان کا رستہ روکنے کی کوشش کی اور انھیں باہر نہ جانے دیا تو پھر ایسے میں سفارتی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر وسیم اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ’پاکستان اور برطانیہ کبھی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کو لے کر سفارتی تعلقات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔‘
ان کے مطابق ’اس سے قبل امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان کی رہائی سے متعلق قراردادیں بھی منظور ہوئیں مگر ان چیزوں کا سفارتی تعلقات پر اثر نہیں پڑا۔‘ تاہم ڈاکٹر وسیم اس بات سے متفق ہیں کہ برطانیہ میں عمران خان کی اچھی شہرت ہے اور وہ اس عہدے کی دوڑ کے لیے ایک اہم امیدوار ضرور تصور کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ عمران خان اگر آکفسرڈ کے چانسلر بن جاتے ہیں تو ان کے لیے اس رول میں کام جاری رکھنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ابھی وہ جیل میں ہیں اور متعدد مقدمات کا انھیں سامنا ہے۔‘
سفارتی تعلقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے ریاستی یا سفارتی تعلقات پر حر ف نہیں آنے دیتا البتہ سول سوسائٹی یا عوام کی حد تک عمران خان کے حق میں سامنے آنا اور بات ہے۔‘ عبدالباسط کے مطابق ’امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے عمران خان کی گرفتاری اور ان کے مقدمات سے متعلق زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔‘
ان کی رائے میں ’ عمران خان کا بھی بنیادی مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اس طریقے سے سیاسی سکورنگ کرنا چاہتے ہیں اور سب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی کتنے مقبول ہیں کہ دنیا کی ایک بہترین یورنیورسٹی نے انھیں اپنا چانسلر چنا ہے۔‘
تاہم ان کے مطابق ’ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آکسفرڈ کے اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی سزا یافتہ شخص، اس بحث سے ہٹ کر کہ یہ سزا درست انداز سے ہوئی یا نہیں، اس کا چانسلر بن سکے؟‘

Watch Live Public News