(ویب ڈیسک ) وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس اور 4 سینئر ججز جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہونگے۔ آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کو حاصل ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 26 نکاتی آئینی ترمیم آج پارلیمنٹ ہاوس میں پیش ہونے جارہی ہے ، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیاء سے مشاورت ہوئی ، اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے آئینی ترمیم کے حوالے سے کمیٹی بنائی تھی ۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی انتھک کوشش تھی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ سے ملاقاتیں کی ، آئینی پیکج کا بریک تھرو لارجر مسودے کے طور پر سامنے لایا گیا ،نواز شریف نے لاہور میں اہم میٹنگ بھی کی تھی اس میں آئینی عہدیداران شریک ہوئی اور مشاورت ہوئی ، ہم نے اپنے اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔جمعیت علماء اسلام پاکستان نے 5 ترامیم پر مزید وضاحت کہا تھا ۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ٹائم لائن کو 2 سال کی بجائے ایک سال کی ، آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے مشاورت ہوئی تھی ، کمیٹی نے جو ترامیم پاس کی وہ اس مسودے میں پہلے سے شامل تھی ۔ جمعیت علماء اسلام آج اپنا ڈرافٹ سامنے لائے اس پر ووٹ کریں گے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے 51 فیصد اکثریت سے ترامیم پاس کرنے کی تجویز تھی، آئینی بینچز کی تشکیل چیف جسٹس کی سربراہی میں بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے پاس اختیار ہو گا ، جوڈیشل کمیشن میں 4 سیئنر ججز اور 4 سینٹ اور اسمبلی کے ممبران شامل ہوں گے ، غیر مسلم برادری کو اسپیکر قومی اسمبلی نامزد کریں گے ، پاکستان بار کونسل کے نمائندے پہلے کئی طرح شامل رہیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام کی شکایات ہیں کہ 8 سال تک کیسسز التواء کا شکار رہتے ہیں ، جوڈیشل کمیشن صوبائی ہائی کورٹ کی مشاورت کے ساتھ کام کرے گی ، حلف کے مطابق کام کرنے والے ججز ترقی کی منازل طے کریں گے ، ماضی میں شکایات رہی ہیں کہ ججز کے کام کرنے کی لگن میں کمی آئی ہیں ، جوڈیشری کو اچھی تنخواہ دی جاتی ہے کہ وہ اچھا کام کرے ۔سپریم جوڈیشل کونسل میں سال تک کیسسز کے فیصلے نہیں ہوتے ، کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری سے 5 ایڈوائزر کو شامل کیا جائے گا۔