جنرل (ر) فیض کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کیا جائے، عمران خان

imran khan on gen faiz
کیپشن: imran khan on gen faiz
سورس: google

 ویب ڈیسک :بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف، جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں کیوں کہ جنرل (ر) فیض اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں۔

صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں کریں، جنرل فیض اور میرا معاملہ فوج کا انٹرنل مسئلہ نہیں، میں سول سابق وزیراعظم ہوں مجھے ملٹری کورٹ میں لے جانے سے پاکستان کا امیج خراب ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض ریٹائرمنٹ کے بعد زیرو ہوگیا مجھے کیا فائدہ دے گا کہ اس سے رابطہ رکھوں، جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد ہیرو نہیں رہا تھا۔

 انہوں ںے کہا کہ اگر 9 مئی سازش کا مرکزی کردار جنرل (ر) فیض ہے تو مطالبہ کررہا ہوں اوپن ٹرائل کیا جائے، 9 مئی کو میرے اغوا کا حکم فوج کے نمبر 1 بادشاہ، سپر کنگ نے دیا تھا، 9 مئی کا معاملہ نیشنل سیکورٹی نہیں لوکل ایشو ہے۔

  عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے یہ اوپن ٹرائل نہیں بند کمرے میں فیصلہ کریں گے۔میرے خلاف سارے کیسز collapse ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ جانے والا ہے اب جنرل فیض کا ڈرامہ رچا دیا گیا ہے۔میں مطالبہ کرتا ہوں جنرل فیض حمید کا اوپن ٹرائل کیا جائے۔ اوراوپن ٹرائل میں میڈیا کو کوریج کی رسائی دی جائے۔

 انہوں نے کہا کہ اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا۔اوپن ٹرائل سے رجیم چینج اور9مئی کی سازش بے نقاب ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی اگر بغاوت کی ہے تو میرا اوپن ٹرائل کریں۔یہ کون سی جمہوریت میں ہوتا ہے ایک سابق وزیراعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا جائے۔

 انہوں نے کہا کہ ڈپٹی سپرٹینڈنٹ اکرم کو اٹھا لیا گیا اس کی بیوی انصاف مانگ رہی ہے یہاں کوئی انصاف نہیں مل رہا۔یہ سب کچھ کر کے صرف اور صرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔یہ سب اتنی تیزی سے اس لیے کیا جا رہا ہے کہ میرے خلاف تمام مقدمات ختم ہورہے ہیں۔

190 ملین پاؤنڈ کیس

 انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض کے حوالے سے کیس پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب تفتیشی نے بیان دیا کہ ملک ریاض کا پیسہ چوری کا نہیں تھا اس کے بعد 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس ختم ہو چکا ہے۔

  عمران خان کاکہنا تھا کہ یہی بات ہم نے کابینہ میں ڈسکس کی تھی کہ جب یہ پیسہ چوری کا نہیں تو اسے پاکستان لایا جائے۔نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے ملک ریاض کی رقم مشکوک ٹرانزیکشن پر فریز کی تھی۔رقم اس لئے فریز کی گئی حسن نواز کی 9 ارب مالیت کی پراپرٹی 18 ارب روپے میں خریدی گئی تھی.

ملک ریاض کی خفیہ ڈیل

 صحافیوں کے سوال کے جواب میں  انہوں نے انکشاف کیا کہ کہ ہمیں ملک ریاض نے کہا تھا کہ این سی اے کے ساتھ ڈیل کو پبلک نہ کیا جائے اسی لیے ہم نے اس ڈیل کو خفیہ رکھا. تاہم ملک ریاض اور این سی اے کی ڈیل کو ایف ائی اے اور نیب کھول سکتے تھے.

ان کاکہنا تھا کہ برطانیہ سے جو رقم پاکستان آئی اس سے اب تک یہ 20 ارب ڈالر کما چکے ہیں۔

صحافیوں کے تابڑ توڑ سوال اور ماتھے پر پسینہ

 انہوں نے بتایا کہ نئے توشا خانہ کیس میں بھی انعام شاہ اور اپریزر کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے۔

صحافی کے اس سوال پر کہ  ملک ریاض کے کہنے پر مان لیا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں آپ نے کابینہ سے منظوری لینے سے قبل یہ تحقیقات نہیں کی کہ یہ پیسہ پاکستان سے باہر کس بینکنگ چینل کے ذریعے گیا۔عمران کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک ریاض نے بتایا تھا کہ یہ چوری یا منی لانڈرنگ کا پیسہ نہیں پھر ہم نے کیا تحقیقات کرنی تھیں۔ 

 جب صحافی نے پوچھا کہ آپ نے صرف ملک ریاض کے کہنے پر یقین کر لیا اور اسکو تحفظ دیا تو عمران خان نے بتایا کہ جی بالکل مجھے شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ ملک ریاض نے بتایا ہے کہ یہ پیسہ چوری یا منی لانڈرنگ کا نہیں ۔

  عمران خان کا کہنا تھا کہ  اگر  ہمیں اس کی تحقیقات کے لیے برطانیہ جانا پڑتا سول عدالت میں کیس کرتے جس کا فیصلہ انے میں پانچ سال لگ جاتے۔

ملک ریاض اور این سی اے کے درمیان جو ڈیل تھی اسے خفیہ رکھنا مجبوری تھی لیکن نیب اور ایف ائی اے اس کو اوپن کر سکتے ہیں، 

اس ڈیل کو خفیہ رکھنا ساری کابینہ کا متفقہ فیصلہ تھا۔

 صحافی کے اس سوال پر کہ بشریٰ بی بی کو گزشتہ روز 12 مقدمات سے ڈسچارج کیا گیا اس کے باوجود اپ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں،   عمران خان کاکہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائض عیسی اور چیف جسٹس اسلام اباد ہائی کورٹ کے علاوہ کسی جج پر انگلی نہیں اٹھائی۔

  جنرل فیض حمید سے رابطے

 اخبار نویس کے اس سوال پر کہ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اپ جیل کے باہر اور اب جیل کے اندر سے بھی فیض حمید سے رابطے میں تھے۔

  عمران خان کا کہنا تھا کہ میرا فیض حمید سے اس وقت تک رابطہ رہا جب تک جب تک وہ ڈی جی ائی ایس ائی اور میں وزیراعظم پاکستان تھا۔جیسے ہی فیض حمید ریٹائر ہوئے یقین مانیں میرا نہ اس سے کوئی رابطہ رہا نہ ہی کوئی تعلق ہے

صحافی کے اس سوال پر کہ   جنرل فیض کوئی معمولی جنرل نہیں تھے ان کے پاس بہت سارے راز ہیں وہ سابق ڈی جی ائی ایس ائی تھے،  انہوں نے کہا کہ میں اسی لیے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر رہا ہوں تاکہ سارے راز اور سازش بے نقاب ہو جائے۔

صحافیوں کے سوالات پر بانی پی ٹی ائی کا حلق بار بارخشک ہوتا رہا،کھانسی کرتے رہے،پیشانی سے پسینہ خشک کرتے رہے۔

Watch Live Public News