اسلام آباد: حکومت نے فوجی عدالتوں میں ملزمان کا اوپن ٹرائل کرنے کا فیصلہ کر لیا، ملزموں کے وکیل اور اہلخانہ مکمل ٹرائل دیکھ سکتے ہیں۔ سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا بڑی احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو کورٹ مارشل کے لیے منتخب کیا گیا۔ جسٹس مظاہر نے پوچھا کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا کس کا نہیں اس کا انتخاب کیسے کیا گیا؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئے تھیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ کے دلائل آپ کی اپنی کہی باتوں کی نفی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جا سکتا ہے اس بارے سوچیں۔ ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015 میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے آئین ایک طرف کر دیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا پراسس بتایا، انہوں نے کہا کہ پہلے وقوعہ کی رپورٹ جی ایچ کیو ارسال کی جاتی ہے، پھر انکوائری شروع کی جاتی ہے، اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔ دوران ٹرائل ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ملزموں کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا ملٹری کورٹس میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونا لازمی ہے۔ بادی النظر میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا پاک فوج نو مئی کے واقعات پر ابھی صرف تحقیقات کررہی ہے، تاحال فوجی عدالتوں میں کسی ملزم کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے۔ اس سے پہلے جائرہ لیا جاتا ہے ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔ اپیل کے لیے سکیشن 133 موجود ہے، پرائیوٹ وکیل کی بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں میں ملزموں کے اوپن ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ملزموں کے وکیل اور اہلخانہ مکمل ٹرائل دیکھ سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کے معاملے پر قانون سازی کے لیےِ ایک ماہ کی مہلت مانگ لی، جسٹس منیب اختر نے کہا ایک ماہ کا وقت تو بہت زیادہ ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت تو 12 اگست کو ختم ہورہی ہے۔ اعتزاز احسن بولے حکومت جان بوجھ کر تاخیر کرہی ہے تاکہ یہ چھ رکنی بینچ فیصلہ نہ کر سکے، چیف جسٹس نے کہا اگر اٹارنی جنرل کی کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل نا ہوا تو متعلقہ شخص کو طلب کریں گے۔ چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہیں۔ لطیف کھوسہ بولے اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا ہم ججز آپس میں مشاورت کر کے آئندہ تاریخ کا اعلان کریں گے، حکومت کی ایک ماہ کی مہلت مانگنے کا جائزہ لے کر حکم نامہ جاری کریں گے۔ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔