مودی کے زیرِ اقتدار صحافتی آزادی شدید متاثر 

مودی کے زیرِ اقتدار صحافتی آزادی شدید متاثر 
کیپشن: Freedom of press under Modi's rule has been seriously affected

ویب ڈیسک: مودی نے اقتدار میں آتے ہی بھارتی جمہوریت کی پہچان کو شدید نقصان پہنچایا۔ مخالف سیاسی جماعتوں، میڈیا کی آزادی اور اقلیتوں کے خلاف مودی کی انتہا پسندی کی واضح مثالیں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق بھارت میں صحافتی آزادی سنگین صورتحال کا شکار ہے۔ بھارتی غیر جانبدار صحافت اور آزاد میڈیا مودی سرکار کی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا کا کہنا ہے کہ " مودی سرکار بھارت میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے"۔ " مودی کے زیر اقتدار بھارت میں آزادی صحافت میں ایک واضح کمی آئی ہے"۔

"بھارت 2023 میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF) کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 161 ویں نمبر پر ہے"۔ "2014 کے بعد مودی کے دور اقتدار میں بھارت 21 درجے تنزلی کا شکار ہو چکا ہے"۔ "اکتوبر 2020 میں بھارتی صحافی صدیق کپن کو شفاف صحافت کے جرم میں گرفتار کیا گیا"۔

"صحافی صدیق کپن کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک دلت لڑکی کی مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کر رہا تھا"۔ "بھارتی صحافی کی تحقیقات منظرعام پر آنے سے قبل ہی انسداد دہشتگردی اور منی لانڈرنگ کے قوانین کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی"۔ "بھارتی صحافی کو دو سال سے زائد عرصے کے لیے جیل میں رکھا گیا"۔ بھارتی صحافی کپن کی گرفتاری کے بعد دیگر صحافیوں میں بھی خوف و ہراس پایا جانے لگا ہے۔ 

سی این این کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی برائے تحفظ صحافت (CPJ) کے مطابق 2014 سے 2023 کے دوران 21 صحافیوں کو بے بنیاد گرفتار کیا گیا۔ "بھارتی صحافی رویش کمار کو بھی متعدد بار غیر جانبدار صحافت کرنے پر مودی اور بی جے پی کی جانب سے موت کی دھمکیاں دی گئیں"۔ "بھارتی میڈیا چینلز بھی مودی کے خوف و جبر کے زیر اثر ہیں"۔ "بھارتی میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا کو بھی مودی کے زیر اقتدار شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے"۔ 

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں آخری آزاد بچ جانے والے میڈیا چینل NDTV کو بھی مودی نے گوتم اڈانی کے ذریعے خرید لیا۔ 2023 میں مودی کے خلاف ڈاکومنٹری نشر کرنے پر بی بی سی انڈیا کی دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اپریل 2024 میں بھارتی حکام نے آسٹریلوی صحافی آوانی ڈیاس کو بھی حالیہ انتخابات کی کوریج کرنے پر بھارت سے نکال دیا گیا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 2024 میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک نے بھی سخت پابندیوں کے باعث بھارت چھوڑ دیا۔ 

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 ستمبر 2020 کو بھی  ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتی جابرانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آکر بھارت میں اپنا دفتر بند کر دیا۔ 

بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ " مودی مخالف مواد نشر کرنے پر میڈیا اور صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے"۔ "بھارت کے زیادہ تر چینلز مودی سرکار کے شدید دباؤ کے باعث حکومت کا راگ الاپ رہی ہے"۔

آزاد صحافت پر قدغن لگا کر مودی سرکار بھارت کا اصل چہرہ دنیا سے چھپانا چاہتی ہے۔

Watch Live Public News