ویب ڈیسک: جنوبی کوریا ملک میں گرتی ہوئی شرح پیدائش کو بڑھانے کے لیے ہر نئے بچے کے پیدا ہونے پر والدین کو 10 کروڑ کوریائی وان (77 ہزار ڈالر یا دو کروڑ پاکستانی روپے) کی رقم دینے پر غور کر رہا ہے۔
نیوز ویب سائٹ ’دا سٹریٹس ٹائمز‘ کے مطابق جنوبی کوریا کے زیرانتظام اینٹی کرپشن اور سول رائٹس کمیشن نے 17 اپریل کو اس حوالے سے عوامی رائے جاننے کے لیے ایک سروے کا آغاز کیا۔
کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ’اس سروے کے ذریعے، ہم ملک میں شرح پیدائش کے فروغ کی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا براہ راست مالی امداد اس مسئلے کا مؤثر حل ہو سکتی ہے یا نہیں۔‘
آن لائن سروے میں چار سوالات پوچھے گئے ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا اس طرح کی مالی امداد بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے گی اور کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس پروگرام پر سالانہ 22 ٹریلین وان خرچ کرنا قابل قبول ہے۔
کم شرح پیدائش کے اقدامات کے لیے مختص یہ رقم جنوبی کوریا کے قومی بجٹ کا تقریباً نصف حصہ ہے جو کہ 48 کھرب وان سالانہ بنتا ہے۔
یہ اقدام جنوبی کوریا میں آبادی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔ 2023 میں ملک میں شرح پیدائش کم ہو کر 0.72 بچے فی خاتون رہ گئی تھی اور یہ تعداد 2024 میں مزید کم ہو کر 0.6 تک پہنچنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں والدین کو بچے کی پیدائش سے لے کر 7 سال کی عمر کو پہنچنے تک مختلف مراعات اور امدادی پروگراموں کے ذریعے 35 ملین وان سے لے کر 50 ملین وان تک کی امدادی رقم ملتی ہے۔
حکومت اس اقدام پر ایک ایسے وقت پر غور کر رہی ہے جب فروری میں جنوبی کوریا کے بلڈر بویوونگ گروپ نے اعلان کیا کہ وہ ملک کی شرح پیدائش کو بڑھانے میں مدد کے لیے اپنے ملازمین کو فی بچے کی پیدائش پر دس کروڑ وان فراہم کرے گی۔