وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ 10 فیصد سپر ٹیکس کے نفاذ کے انکم سلیب کو 30 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کی شرح کو بھی مزید پروگریسیو کیا ہے پہلے سیدھا 10 فیصد تھا جسے بتدریج 6، 8 اور 10 فیصد کردیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اراکین پارلیمان کی جانب سے مختلف معاملات پر اہم تجاویز دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ سے 169 تجاویز موصول ہوئیں جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی، پوری کوشش کی گئی ہے مشکل حالات کے باوجود جن تجاویز پر عمل ممکن ہو انہیں مکمل یا جزوی طور پر شامل کرلیا جائے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹیکس ریونیو میں اضافے کی شدید ضرورت ہے، سپر ٹیکس زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے اور جو یہ ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں، صرف ان پر ہی لاگو ہوتا ہے، اس لیے حکومت اسے ان تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال اس ٹیکس کے نفاذ کیلئے خصوصی شعبے منتخب کیے گئے تھے اور ان پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا تھا لیکن اس تفریق کو ختم کردیا ہے اور سلیبز کو بڑھا دیا گیا ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے گزشتہ سال ملکی معیشت کے حالات کے باعث درآمدت پر کافی پابندیاں عائد کی تھیں کیوں کہ ہماری ترجیح بیرونی ذمہ داریاں پوری کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ان تمام پابندیوں کو واپس لے لیا گیا ہے جس کے بعد کاروباری برادری کو درپیش مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نان فائلرز کے بینک سے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح پر میں واضح کردوں کہ یہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اہم قدم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اراکین نے بونس شیئر پر ٹیکس پر اعتراض اٹھائے، کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو نقد یا بونس شیئر کی صورت میں منافع جاری کرتی ہیں، شیئر ہولڈرز جب اپنے شیئرز فروخت کرتے ہیں تو اس پر15 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن بونس شیئر کی صورت میں منافع وصول کرنے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا اس لیے ہم نے دونوں پر ٹیکس عائد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے کہ کاروباری اعتماد متزلزل نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت کابینہ نے زیادہ توانائی کھینچنے والے پنکھوں پر 2 ہزار روپے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد اجلاس کیے جس کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ کمپنی اپنی ٹیکنالوجی تبدیل کر کے نئی ٹیکنالوجی اپنالیں کیوں کہ وہ پنکھے بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا اس کے علاہ بجلی کے پرانے بلبوں کا بھی یہی معاملہ تھا جس کے بعد اشتہارات کے ذریعے صنعت کو اس تبدیلی کے لیے وقت دینے کی اپیلیں کی گئیں تا کہ وہ اپنی تیاری کرسکیں چنانچہ ہم انہیں 6 ماہ کی مہلت دے رہے ہیں اور یہ ٹیکس اب یکم جنوری 2024 سے نافذ ہوگا۔