ویب ڈیسک: گزشتہ روز صدر جوبائیڈن کی جانب سے صدارتی معافی کا اعلان کرتے ہوئے 37 افراد کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کے بعد اب جب صدر ٹرمپ 20جنوری کوعہدہ سنبھالیں گے تو وفاقی جیل میں صرف تین افراد کو موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بائیڈن کی جانب سے جاری کردہ صدارتی معافی کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
تفصیلات کے مطابق یہ تین وہ تمام افراد ہیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر فائرنگ یا دہشت گردانہ حملوں کا ارتکاب کیا۔
نمبر ایک رابرٹ بوورز، جنہوں نے 2018 میں پِٹسبرگ کے ٹری آف لائف سیناگوگ میں 11 افراد کو ہلاک کیا۔
نمبر دو ڈیلن روف، ایک سفید فام قوم پرست جس نے 2015 میں چارلسٹن، ساؤتھ کیرولینا میں تاریخی سیاہ فام چرچ میں نو افراد کو قتل کیا تھا۔
اور نمبر تین زوکھر سارنائیف، دو بھائیوں میں سے ایک جو 2013 میں بوسٹن میراتھن بم دھماکے کے ذمہ دار تھے۔
موت کی سزائیں تبدیل کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوبائیڈن پر سخت تنقید کی ہے۔ نومنتخب صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حلف برداری کے بعد وہ محکمہ انصاف کو ہدایت دیں گے کہ " سزائے موت پر سختی سے عمل کیا جائے"۔
صدر جو بائیڈن کی جانب سے پیر کو 37 وفاقی قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر نے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا سماجی رابطے کی سائٹ ’’ٹروتھ سوشل’’ پر کہنا تھا کہ "جیسے ہی میں حلف اٹھاؤں گا، میں محکمہ انصاف کو ہدایت دوں گا کہ وہ امریکی خاندانوں اور بچوں کو پرتشدد عصمت دری کرنے والوں، قاتلوں سے بچانے کے لیے سزائے موت کی سختی سے پیروی کرے۔ ہم ایک بار پھر امن و امان کی قوم بنیں گے۔
یاد رہے کہ اپنی مہم کے دوران، سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے صدرٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ پرتشدد جرائم اور منشیات اور انسانی اسمگلنگ کو کم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کو بروئے کار لائیں گے۔ اپنی 2024 کی صدارتی مہم کا آغاز کرتے ہوئے، انہوں نے منشیات فروشوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کرنے کا عہد کیا۔
اسی طرح2024 کی مہم کے آخری ہفتوں کے دوران، ٹرمپ نے بار بار اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی بھی تارکین وطن کے لیے سزائے موت پر زور دیں گے جو کسی امریکی شہری یا قانون نافذ کرنے والے افسر کو قتل کرتا ہے۔
یادرہےٹرمپ کی پہلی مدت سے قبل امریکی حکومت کی طرف سے دی جانے والی پھانسیاں غیر معمولی تھیں۔ ٹرمپ کے اس وقت کے اٹارنی جنرل ولیم بار کی طرف 2019 میں وفاقی حکومت کی جانب سے پھانسی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے 1988 سے لے کر اس وقت تک صرف تین وفاقی پھانسیاں دی گئی تھیں۔
2020 میں، ٹرمپ کی پہلی مدت کے آخری سال، وفاقی حکومت نے 10 افراد کو پھانسی دی، جو 1896 کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ پھانسی ہے اور اس سال تمام 50 ریاستوں کو ملا کر سب سے زیادہ پھانسی دی گئی۔
سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر کے مطابق، وفاقی نظام سے باہر ریاستی انتظام کے تحت ریاست ہائے متحدہ میں 2,000 سے زیادہ لوگ ہیں۔ جنہیں ریاستی عدالتوں میں سزا سنائی گئی اور وہ سزائے موت کے منتظر ہیں۔ بائیڈن کے پاس ان سزائے موت کو روکنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔