اسلام آباد(پبلک نیوز) الیکشن کمیشن آف پاکستان میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں مبینہ دھاندلی کیس کی سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے دلائل دئیے کہ حلقے میں متعدد پولنگ سٹیشنز کو ٹارگٹ کر کے ووٹنگ22 فیصد سے بھی کم ہونے دی گئی، وہ جانتے تھے کہ ن کا مرکزی گڑھ کون سے پولنگ اسٹیشنز ہیں، ان پولنگ اسٹیشن پر ووٹنگ شرح جان بوجھ کر کم رکھی گئی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ضمنی الیکشن میں بےضابطگیوں کے معاملے پر سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ن لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کے دوران این 75 میں ضمنی انتخاب کے دوران ایف آئی آر کا حوالہ بھی دیا۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر جھوٹ پر مبنی ہے، الیکشن کمیشن نے شیڈیول جاری کرتے ہوئے تقرر و تبادلوں پر پابندی لگائی تھی تاہم ضمنی انتخاب کے دوران پولیس آفیسر ذولفقار ورک کو تبدیل کیا گیا، پابندی کے باوجود ذوالفقار ورک کو ڈی ایس پی لگایا گیا۔ دھاندلی کی سازش پولنگ کے دن سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔
سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ کس نے تعین کیا تھا کہ ذوالفقار ورک کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتا، آئی جی پنجاب کو بھی ذوالفقار ورک میں دلچسپی نہیں ہو گی۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دئیے کہ انہوں نے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن داخلے سے روکا، ان جگہوں پر ٹرن آوٹ 35 فیصد سے کم رہا جبکہ دیگر پولنگ اسٹیشن میں پچاس فیصد سے اوپر گیا۔ جن پولنگ اسٹیشن کے پی اوز(پرزائیڈنگ آفیسرز) غائب ہوئے وہاں ووٹنگ کی شرح 80 فیصد رہی، الیکشن ہارنے کا اندازہ ہوا تو یہ ان پولنگ اسٹیشن کے پی اوز کو ساتھ لے گئے، انہوں نے فارم 45 پُر کیے، یہ واضح سکیم تھی الیکشن میں فراڈ کرنے کی، سکیم تھی نوشین افتخار کے سٹرانگ علاقوں میں ووٹنگ کم رکھی جائے اور اپنی ہار کی کمی کو 20 پولنگ اسٹیشن سے انھوں نے پورا کیا۔