پبلک نیوز: طالبان حکومت نے دوحہ معاہدے کی عہد شکنی کردی۔
تفصیلات کے مطابق طالبان رجیم کے بعد خطے میں بگڑتی امن و امان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی دوحہ معاہدہ کیا گیا تھا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے خطے بالخصوص افغانستان کے پڑوس ممالک کو افغان سرزمین سے دہشتگردی کا سامنا ہے، 29 فروری 2020 کو امریکہ اور عبوری افغان حکومت کے درمیان تاریخی دوحہ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
دوحہ معاہدہ دونوں جانب سے حتمی رضامندی سے کیا گیا تھا جس کا مقصد علاقے میں امن و استحکام کو یقینی بنانا اور دو دہائیوں سے جاری لڑائی کو ختم کرنا تھا۔
طالبان رجیم میں دوحہ معاہدے کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور افغانستان کی موجودہ صورت حال معاہدے کے بالکل برعکس ہے۔ دوحہ معاہدے پر دستخط کے 4 سال گزر چکے مگر طالبان حکومت نے اس معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ کی بلکہ اپنے وعدوں سے ہی مکر گئے ۔
امریکہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان حکومت پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ طالبان دوحہ معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں ، افغانستان سے حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر جنم لینے پر یہ ثابت ہو گیا کہ طالبان حکومت دوحہ معاہدے کو لے کر سنجیدہ نہیں۔
افغانستان ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث رہا ہے اور طالبان حکومت میں اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے ۔
افغانستان افراتفری اور انتشار کا ایک گڑھ بن چکا ہے جہاں ہر طرح کی دہشت گردی پائی جاتی ہے۔اگست 2021 میں تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی موجودگی کے ثبوت اور ان کی حوالگی کے بار بار مطالبات کے باوجود افغان طالبان نے دہشت گردی کے دیرینہ مسئلے کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔
دوحہ معاہدے کی شرائط کے پیش نظر، عبوری افغان حکومت اخلاقی طور پر افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کی پابند ہے۔
خطے میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے طالبان حکومت کے لیے دوحہ معاہدے کو پورا کرنا ناگزیر بن چکا ہے۔