سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں گذشتہ روز کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ یہ تحریری فیصلہ تین صفحات پر مشتمل ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت فریقین کے وکلا نے فل کورٹ کے حوالے سے گزارشات کیں۔ ہم نے وکلا کو فل کورٹ کے حوالے سے گھنٹوں سنا۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کیس میں صرف ایک ہی قانونی نقطہ شامل ہے کہ آیا 63 ون بی کے تحت پارلیمانی سربراہ یا پارٹی کے سربراہ نے ہدایات جاری کر سکتے ہیں؟ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران چودھری شجاعت حسین، پیپلز پارٹی اور ڈپٹی سپیکر کے وکلا نے پارٹی ہیڈ کے ہدایات جاری کرنے کے حق میں دلائل دیے۔ کیس تفصیلی سننے کے بعد فل کورٹ بھجوانے کی حد تک استدعا مسترد کرتے ہیں۔ دوران سماعت فریقین کے وکلا نے گزارشات کے لئے مزید مہلت کی استدعا کی جسے منظور کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد خیال رہے کہ گذشتہ روز ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، فریقین کے دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے سب کو تفصیل سے سنا ہے۔ فل کورٹ تشکیل دینے پر دلائل دیئے گئے، سماعت کے دوران قانون سے متعلق سوالات اٹھائے گئے، کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کے ممبران کو ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے کہہ سکتا ہے،فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میرٹ پر کل صبح 11:30 بجے سنیں گے، فل کورٹ نہ بنانے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے، یہ ہی بینچ کیس کی سماعت کرےگا۔ قبل ازیںدوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کے میرٹ پر سب فریقین کو سنیں گے، فل کورٹ کے حوالے سے ابھی دیکھیں گے، دلائل سن کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں. فل کورٹ بنانے کیلیے مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے. اس دوران حمزہ شہبازاورڈپٹی اسپیکرکےوکلاء نے میرٹ پر دلائل دینے سے اجتناب کیا. عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ہمیں تو آج فل کورٹ کی ہدایات تھی، مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔حمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے بھی حمزہ شہباز سے ہدایات لینے سے وقت دیا جائے. جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا چیف جسٹس نے کہا ہے ابھی ہم مزید فریقین کوسننا چاہتے ہیں۔ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کےکہنے پرابھی فل کورٹ بنا دیں. اس دوران سپریم کورٹ نے چوہدری شجاعت حسین اور پی پی پی کی فریق بننے کی درخواست منظور کر لی. چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین اور پی پی پی کے وکلا مزید دلائل دیں. کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مزید کہا پانچ ججوں کے ساتھ ہم نے وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے ، اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے ، لمبے سفر کے بعد 63 اے بنی ہے. وزیر قانون نے اس موقع پر کہا ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن اف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، یہ بارہ کروڑ کے وزیراعلی کا مسئلہ ہے. چیف جسٹس نے کہا کیس طویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے ملک میں اچھی طرز حکمرانی بہت اہم معاملہ ہے، ہم نے وفاقی حکومت کے کیس میں ازخود نوٹس لیا، ہماری نظر میں اسپیکر صاحب نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی. ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ نظرثانی کیس کو اس کیس سے الگ نہیں کر سکتے، وزیر قانون صاحب کو سپریم کورٹ میں استدعا کرنے کی ضرورت نہیں، اگر عدالت کہہ دے منحرف اراکین کا ووٹ شمار ہوگا تو پھر معاملہ خراب ہو جائے گا. ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کیساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے فیصلوں میں متحد ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ پر تنقید نہیں کر رہا، ہم ہیں چلے جائیں گے، آئین کی بالادستی ہونی چاہیے، نظرثانی کا مجھے مکمل حق حاصل ہے، اس کیس کو جلد بازی میں نہ سنا جائے، سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں عدالت میرے دلائل میں مداخلت کرے، میں بھی جج رہ چکا ہوں، پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی ہیڈ میں بڑا فرق ہے، پرویز الہیٰ کو وہ جماعت وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے وہ اسے ڈاکو کہتی تھی، چوہدری شجاعت حسین صاحب ملک کے بڑے سیاست دان ہیں. چیف جسٹس نے کہا سوشل میڈیا حقائق نہیں صرف بیانیہ سنتا ہے، ہم نے اس کیس میں تمام فریقین کو بات کرنے کا موقع دیا، یہ عدالت زیر التوا مقدمات نمٹانے کیلئے دن رات کام کر رہی ہے، اس کیس میں ہیڈ آف پارٹی کی ڈائریکشن ہے، صرف ایک نقطہ دیکھنا ہے کیا پارٹی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اوور رول کر سکتا ہے یا نہیں، پارلیمانی پارٹی عام عوام کی اسمبلی میں نمائندگی کرتی ہے، 18ویں ترمیم میں پارلیمانی پارٹی کو اختیارات دیے، بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا، ہم نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہے، افراد کو نہیں. اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے کہا یہ دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کا مسئلہ عدالت میں آسکتا ہے یا نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ غیر آئینی کام کرے گی تو معاملات عدالت میں آئیں گے. پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا چیئرمین سینیٹ الیکشن میں ووٹ مسترد کرنا سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے، پارلیمان کے مسلے عدالتوں میں نہیں آنا چاہیے. چیف جسٹس نے پھر کہا جب پارلیمان میں آئین شکنی ہوگی یا غیر قانونی اقدام ہوگا تو معاملہ سپریم کورٹ میں آۓ گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا معاملہ آئینی نہیں عدالتی فیصلے کی تشریح کا ہے، اگر تشریح غلط ہے تو اسکی درستگی کریں گے. فاروق ایچ نائیک نے کہا اگر معاملہ پارلیمان کا اندرونی ہوا تو عدالت کا اختیار نہیں ہوگا. جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد بھی پارلیمان کا اندرونی معاملہ نہیں تھا؟ اس وقت تو آپ کہتے تھے عدالت کا مکمل اختیار ہے. فاروق ایچ نائیک نے کہا بدھ یا جمعرات تک سماعت ملتوی کردیں۔ سٹس اعجاز الااحسن نے کہا ہم نے اسکو وانس فار آل فیصلہ کرنا ہے، معاملات کو لمبا کیوں کرنا چاہتے ہے، گذشتہ حکمنامہ میں لکھا ہے وزیر اعلی کا عہدہ مشکل میں ہے. واضح رہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آ گئے اور مؤقف اپنایا کہ موجودہ صورتحال میں تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ کرائسس بہت زیادہ ہیں، سسٹم کو خطرہ ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست مقرر کی جائے اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے فل کورٹ بنایا جائے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹنگ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کا ہوتا ہے۔ خلاف ورزی پر معاملہ پارٹی سربراہ کے پاس جائے گا۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کیخلاف چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم آئے تو چیف جسٹس نے ان کیساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کافی صدور یہاں موجود ہیں۔ لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظر ثانی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب ہمارے لئے قابل عزت ہیں۔ یہ کیس براہ راست ہمارے فیصلے سے منسلک ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ میں عدالت سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں آپ نے کہا کہنا ہے۔ لطیف آفریدی نے کہا کہ اس وقت درجہ حرارت بڑا ہائی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف بھی کیس زیر التوا ہیں۔ آئینی بحران سے گریز کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم دائو پر لگا ہوا ہے۔ سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو سٹیک ہولڈر ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی، اسے بھی سنا جائے۔ وہ سوال ہمارے سامنے نہیں آیا جس کے لئے عدالت درخواست سن رہی ہے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ 63اے کے حوالے سے جج صاحبان اپنے فیصلے کا کا پیرہ ون اور ٹو پڑھ لیں۔ ان کو پڑھنے سے سب باتیں کلیئر ہو جائیں گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عرفان قادر کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ تاہم عرفان قادر اپنی بات پر قائم رہے اور کہا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے عرفان قادر کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کی بات پہلے سن لیں۔ اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عرفان قادر کا اس پر مودبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ چیف جسٹس ہیں۔ آپ تو ہمیں ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا ذکر بھی ہے، اس کو بھی دیکھ لیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ میں تو آپ کو محترم کہہ کر پکار رہا ہوں۔ اس پر عرفان قادر نے جواب دیا کہ عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپ کی معاونت کیلئے آئے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں۔ آپ ناراض ہو گئے ہیں، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بعد ازاں حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا، اس کا بتائیں۔ حمزہ شہباز کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔ آپ کے سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں؟ اس پر منصور اعوان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18 ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا۔ اس کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا۔ ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔ وکیل حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ وکیل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ پارٹی ہیڈ پارٹی کے تمام فیصلوں میں خود مختار ہوتا ہے۔ جے یو آئی (ف) پارٹی سربراہ بھی پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ ہمارا سوال اس وقت پاکستان مسلم لیگ ق سے متعلق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کا ڈیفیکشن کی صورت میں اختیار اہم ہے۔ پارٹی سربراہ کا نااہلی ریفرنس بھیجنے میں مکمل اختیار ہے۔ آئین اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی جانب سے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی پر ہی پارٹی سربراہ کارروائی کر سکتے ہیں۔ پارٹی سربراہ کا اپنا کلیدی کردار ہے، وہ منحرف ممبران کے خلاف ڈیکلریشن دے سکتے ہیں۔ لیکن ووٹنگ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کا ہوتا ہے۔ خلاف ورزی پر معاملہ پارٹی سربراہ کے پاس جائے گا۔