ججوں کو نکالنا آسان کام نہیں،گروپ بندی ہوجاتی ہے:جسٹس منصور علی شاہ

ججوں کو نکالنا آسان کام نہیں،گروپ بندی ہوجاتی ہے:جسٹس منصور علی شاہ
کیپشن: ججوں کو نکالنا آسان کام نہیں،گروپ بندی ہوجاتی ہے:جسٹس منصور علی شاہ

ویب ڈیسک: جسٹس منصور علی شاہ نے کہاہے کہ   دنیا میں ایک ملین آباد ی پر 90 جج ہوتے ہیں لیکن ہمارے ایک ملین آبادی پر 13 ججز ہیں ،ہمیں تنازعات کے حل کیلئے دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہو گا،پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے ، کرکٹ میچ ہار گئے تو سٹرائیک ہو جائے گی، جسٹس سسٹم کمزور ہو گا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے فارغ کریں۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے ،عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم ہونا چاہیے ، پریکٹس اینڈ پروسیجر میں چیف جسٹس کا قدم قابل تحسین ہے ، جج سسٹم کو گرا سکتا ہے اور کھڑا کر سکتا ہے ، عدلیہ کا نظام کو کوئی اکیلا نہیں چلا سکتا ، ججوں کو نکالنا آسان کام نہیں ہے ، گروپ بندی ہو جاتی ہے ، ہمیں تنازعات کے حل کیلئے دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہو گا، تنازعات کے حل کیلئے ادارے کو کام کرنا ہے ، ہر کیس میں عدالت سے رجوع کرنا بھی ضروری نہیں ہے ۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان کے 138 ضلعوں میں ثالثی سسٹم قائم ہوں گے ،ماتحت عدلیہ میں 70 ہزار کیس روز فائل ہو رہے ہیں، پاکستان میں چار ہزار ججز ہیں، تین ہزار کام کر رہے ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90 جج ہیں، پاکستان کی آبادی 231 ملین ہے ، اس تناسب سے فی ملین 13 جج ہیں ، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90 جج کو اپنایا جائےتو پاکستان کو 21 ہزار ججز درکار ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے ، کرکٹ میچ ہار گئے تو سٹرائیک ہو جائے گی، لوگ بکریاں بھینس بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں، جسٹس سسٹم کمزور ہو گا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے فارغ کریں،عدلیہ کو افراد کی بجائے سسٹم کے تابع ہونا پڑے گا، جب تک سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے آگے نہیں چل سکیں گے ،آئین میں لکھا ہے عدلیہ مکمل آزاد ہوناچاہیے ، میں عدلیہ کی تاریخ سے بہت خوش نہیں ہوں، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے ،کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس پر عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔

مٹ جائےگی مخلوق تو انصاف کرو گے,منصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جسٹس منصور علی شاہ  نے اپنے خطاب کا اختتام اس  شعر پر کیا کہ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے۔