(ویب ڈیسک ) محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو میرا پیغام پہنچا دیں کہ فارم 47 کی اسمبلی میں نہیں بیٹھیں ، ہم اپنی الگ اسمبلی بنائیں گے جس اسپیکر اسد قیصر ہوگا ،اگر ہماری ممبر شپ ختم کریں گے تو ہم عدالتوں میں جائیں گے ۔
چیئرمین پی ٹی آ ئی بیرسٹر گوہر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا یہ سب پی ٹی آئی گزشتہ دو سالوں سے دیکھتی آئی ہے ، آج ہمیں سب کچھ بھول کر مستقبل کے بارے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، پاکستان میں 175 جماعتیں موجود ہیں، آئین میں یہ ضرور لکھا ہے کہ مدت پانچ سال ہوگی مگر یہ بھی لکھا ہے کہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے دوبارہ الیکشن کروائے جاسکتے۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے رولز میں حلف کے حوالے سے واضح لکھا ہے کہ رولز کی پاسداری کریں گے ، ہمیں تعین کرنا ہوگا کہ ہمیں تاریخ کی کس سمت کھڑا ہونا ہے ،پاکستان تحریک انصاف پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی، بانی پی ٹی آئی عوامی پاور پر یقین رکھتا ہے اس لیے جیل میں قید ہے، اسٹیبلشمنٹ صرف پاکستان میں نہیں باقی ممالک میں بھی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کیا پاکستان میں پولیٹیکل قوتیں زیادہ کمزور ہیں؟، یا اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہے؟، یہاں پر سیاسی قوتیں زیادہ کمزور ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سر پہ سوار ہے ، اب مزید دیر کی گنجائش نہیں ہے۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، پاکستان کے قانون میں سترہ قسم کے حلف کا ذکر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، ہم نے کچھ نہیں مانگا، محمود خان اچکزئی کو کہا آپ صدر ہوں گے، بانی پی ٹی آئی نے کمپرومائز نہیں کیا اس لئے جیل میں ہیں، انتخابات ہوئے تو ہمیں ریلی کی اجازت بھی نہیں تھی، جماعت اسلامی نے بڑا دل کیا اور کراچی میں اپنی سیٹیں واپس کیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انتخابات کے دوران ہمیں کنونشنز کرانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، 175 سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت نے بھی ہمارے حق میں بات نہیں کی تھی، جماعت اسلامی ایک واحد جماعت تھی جس نے کراچی میں ہماری سیٹ واپس کی ۔
انہوں نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کروا لی گئی، ایسا ہونا چاہیے جس میں سسٹم کی ہار نہ ہو، چھبیسویں آئینی ترمیم کے وقت ہم مولانا فضل الرحمان کے کردار کو سراہتے ہیں،چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے فضل الرحمان سے ہماری کسی شق پر بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آئینی ترمیم کے آخری دن ہمیں بتایا گیا کہ کسی کے پاس کوئی ڈرافٹ نہیں ہے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں ووٹ کروں گا کچھ مجبوریاں ہیں، چھبیسویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا گیا وہ الگ تھا اور سینیٹ میں اور پیش کیا گیا اور ہمیں اور دکھایا گیا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جن کے ہاتھ میں استرا ہے ان سے وہ استرا لینے کے لیے طریقہ کار بنانا ہوگا ، ہم نے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد مذاکرات کا اعلان کیا تھا ، بانی پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے اختیار دیا تھا۔
محمود خان اچکزئی کا تقریب سے خطاب :
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں سیکورٹی فورسز کو اس فریم میں لانا ہوگا جہاں پوری دنیا کی افواج ہوتی ہے، یہ دوسری الائنس ہے جس سے لوگ گھبرا رہے ہیں ، سب پارٹیوں نے اب توبہ النصوح کرنا ہوگا ، وعدہ کرنا ہوگا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے گی ۔
انہوں نے کہا کہ جس حکومت کو آپ چور سمجھتے ہوں اس کے سے مذاکرات نہیں مال کی واپسی کا مطالبہ ہوگا، جنہوں نے ہمارے بچے مارے ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے ، بانی پی ٹی آئی کو میرا پیغام پہنچا دیں کہ فارم 47 کی اسمبلی میں نہیں بیٹھیں ، ہم اپنی الگ اسمبلی بنائیں گے جس اسپیکر اسد قیصر ہوگا ،اگر ہماری ممبر شپ ختم کریں گے تو ہم عدالتوں میں جائیں گے،پاکستان بننے سے پہلے کسی سیشن جج کے کوچے میں کوئی نہیں گزر سکتا تھا ، میں وعدہ لیتا ہوں کہ کوئی مذاکرات نہیں ہونگے ، ہم نے مذاکرات کرنے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کرنے ہیں اور ان کو راستہ دیں گے کہ وہ سیاست سے کنارہ کریں۔
مہتاب عباسی کا خطاب:
مہتاب عباسی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں ، ہماری معیشت ٹھیک ہوسکتی ہے، قانون اور آئین کی پامالی ملک کے لیے مشکل وقت ہوتا ہے ، ملک کو بچانا ہے تو ایک قانون کی بالادستی قائم کرنی ہوگی، آئین اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ہم ہر تحریک کا حصہ رہے ۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان پاکستان کے اہم ترین حصے ہیں ، اس وقت حکومت ایک چھوٹے سے پروگرام سے ڈرتی ہے ، بلوچستان میں بدامنی ہے وہاں کے لوگوں کی کوئی سننے والا نہیں ہے، ہم وہ ملک چاہتے ہیں جس میں عدلیہ میں من پسند جج نا بیٹھے ہوں ، ہم نے اپنی جدوجہد کو آئینی اور قانونی طریقے سے چلانی ہے ، ہم اس کانفرنس کے بعد یکجا ہوکر آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں۔
جی ڈی اے رہنما گلزار سومرو کا خطاب:
گلزار سومرو نے کہا کہ سب سے پہلے اس کانفرنس میں پہنچا، گیٹ بند ملا، ہمیں ایک نقطہ سمجھنا ہوگا، پاکستان ایک کا نہیں، ہم سب نے پاکستان بنایا ، ہم بھاگنے والوں میں نہیں ہیں ، ہم ملک کے لئے لڑیں گے اور مریں گئے ، جو ملک کے خلاف بات کرتےہیں، سندھ کے عوام ساتھ دیں گے۔
صاحبزادہ حامد رضا کا کانفرنس سے خطاب :
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ بچپن سے سن رہا ہوں بلوچستان کا مسئلہ ہو جائے گا ، آج تک بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ، یہاں پر ہوٹل والوں نے کہا کہ گیٹ پلانگ کر آئیں ، اس سے بڑا ظلم اور ناانصافی نہیں ہوسکتی ، اس معاملے کو انسانی حقوق کمیٹی اور استحقاق کمیٹی میں اٹھاؤں گا۔
سیکریٹری جنرل عوام پاکستان پارٹی مفتاح اسماعیل کا تقریب سے خطاب :
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آئین تمام شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے ، مسلم لیگ ن والے جب کہتے تھے کہ ووٹ کو عزت دو دراصل وہ آئین کو عزت دو کہتے تھے ، اب ان کے پاس کوئی جواز ، کوئی بات نہیں ہے ۔سیاست کا کیا مقصد ہے آپ کے پوتے اور نواسے وزیر اعظم بن جائیں ، اس حکومت نے کوئی قانون اور آئین کی پاسداری نہیں کی ۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں فارم 47 کا سیلاب آیا ہوا ہے ، راتوں رات اس اسمبلی سے نے ترامیم پاس کروا لیں،
آج شاہد خاقان عباسی کے خلاف بات کررہے ہیں کہ انہوں نے چیف جسٹس پر بات کی ، اس کے خلاف بات نہیں کررہے جس نے چیف جسٹس کے اختیارات ختم کیے ، سیاسی جمود رہے گا تو ملک اور معاشرے میں عدم استحکام رہےگا ، بند کمرے میں سو آدمیوں کو بھی بات نہیں کرنے دے رہے پھر کہتے سڑکوں پر کیوں آئے ، پاکستان پستی کا شکار ہورہا ہے ، جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے تھے تب ہم ساتھ کھڑے تھے ، آپ آج ڈر رہے ہیں ، اگر ایمانداری سے آتے تو آج نا ڈرتے۔
کامران مرتضیٰ کا تقریب سے خطاب:
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ عمارت سپریم کورٹ بار کی ہے ، جب یہ مکمل ہوئی تب میں سپریم کورٹ بار کا صدر تھا ،آج سیاسی عمل یہاں ہونا تھا اس عمارت کو اس عمل میں شریک نہیں ہونے دیا گیا ، شرم کی بات ہے ، آج یہ کانفرنس عاصمہ جہانگیر ہال میں ہونا تھی ، عاصمہ جہانگیر اگر زندہ ہوتیں تو آج میری طرح وہ بھی شرمندہ ہوتی ،اس کانفرنس میں کسی اور نا حصہ ڈالا ہو یا نا ہو حکومت نے کامیابی میں حصہ ڈالا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے عنوان سے کانفرنس رکھی گئی، آج ہم قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں ، ہمارے صوبے میں بندے اٹھائے جاتے ہیں آج دوسرے صوبوں کے ساتھ زیادتی ہورہی تو بلوچستان یاد آیا ، جب بچے غائب ہوتے ہیں تو پندرہ پندرہ سال تک ملتے نہیں ہیں ، کچھ لوگوں کو آرٹیکل 5 آج اپنے بچے اُٹھائے گئے ہیں تب یاد آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کو کمپرومائز کرنے میں تمام شریک ہیں ، آپ اور میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہر روز مداخلت بڑھتی جا رہی ہے ، یہ مداخلت ہمارے ساتھ کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔
علامہ راجہ ناصر عباس کا خطاب:
علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ہم اپنے افواج کے خلاف بات نہیں کرتے ہیں ، ہمارے افواج کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ، جو پاک فوج کے خلاف بات کرتا ہے،وہ ملک دشمن ہے ،جو فوج کو ختم کرنے کی بات کرتے ہے وہ ملک دشمنی ہے، ہم کہتے ہیں ہر ادارے کا کہنا کا ہے اپنی ذمہ داری وہ انجام دے، ہم اپنے ملک کے لئے خون کا آخری قطرہ دے دیں گے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا خطاب:
مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ایسا میثاق بن جائے جس پر ساتھ چلنا آسان ہو، بلوچستان کے لوگ 75 سال سے مار کھا رہے ہیں، ہمارے قائدین سطح کا قرآن کریم رکھ کر معاہدہ ہوا عمل نہیں ہوا ، ہمیں کہا گیا کہ بلوچستان کے لوگ آئین کو نہیں مانتے۔