’ایسا نہیں ہو سکتا ایک پاکستان میں دو آئین ہوں‘

’ایسا نہیں ہو سکتا ایک پاکستان میں دو آئین ہوں‘
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1973 کا آئین بنانے کیلئے ہمیں 30 سال لگے، اس آئین کو توڑنے کا وقت آیا تو سارے ادارے ملوث تھے، پھر آئین کی بحالی کیلئے ہمیں تیس سال جدوجہد کرنی پڑی، شہید بے نظیر بھٹو نے اسی آئین کی بحالی کیلئے شہادت حاصل کی، ہم نے اپنی حکومت میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ آئین بحال کیا. ان کا کہنا تھا کہ اس تاریخی کامیابی کے بعد صدر کے `آمرانہ اختیارات واپس لیئے، ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیئے، یہ اس لیئے کیا کہ سپریم کورٹ آزاد ہو، عوام اور میڈیا آزاد ہوا، افسوس کے ساتھ ایک نیکسسس پیدا ہوا تاکہ وہ کنٹرولڈ جمہوریت چلا سکے ، نیا 58/ ٹو بی کا اختیار اب عدالت کے پاس چلا گیا ہے، پہلے یہ اختیار صدر کے پاس تھا، ہر روز عوام کے مینڈیٹ اور منتخب ایوان پر حملہ ہوتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ افتخار چوہدری نے کسی کے ہاتھوں میں آکر ایسے فیصلے دیئے جو آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھے، ہم نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی اور اقتدار منتقل کیا، سموسے اور آلو کی قیمت کے فیصلے کورٹ روم نمبر ایک میں ہوتے تھے، میثاق جمہوریت پر جو کام رہ گیا ہے وہ عدالتی اصلاحات کا ہے، ہم نے آئینی کورٹ بنانا تھی اور ججز کے اختیارات کا تعین کرنا تھا، اس ایوان کو اور وزیراعظم کو دھمکی دی گئی کہ ججز کو اختیارات دو ورنہ اٹھارویں ترمیم اڑادیں گے، ہمیں کہا گیا کہ انیس ویں ترمیم پاس کرو، یہ ہماری غلطی تھی کہ انیس ویں ترمیم پاس کی، اس وقت کی اپوزیشن اس میں خوش تھی، ایک بار پھر ہم نے دیکھا کہ آئین کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے، اس دور میں عدالت کا کردار ٹھیک نہیں تھا، دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا، اس وزیراعظم کے سینیٹرز کو آزاد قرار دیا گیا. انہوں نے مزید کہا کہ 2018 کے انتخابات کے دوران ایسا لگتا تھا کہ کئی ججز انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارے خلاف مہم چلا رہے تھے ، 2018 سے اپریل 2022 تک ایک سلیکٹڈ حکومت کو بچانے کے لیے اداروں نے متنازعہ کردار ادا کیا ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار غیر متنازعہ ہونا چاہیے ، اسی لیے ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا، ایک فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ کی ہدایات ضروری ہے، دوسرے فیصلے کے مطابق پارلیمانی پارٹی کی ہدایات ضروری ہیں، عدالتی اصلاحات کے بغیر جمہوریت کا سفر نا مکمل ہوگا ، سپریم کورٹ کا مطلب صرف چیف جسٹس نہیں ہے ، اسپیکر صاحب میرا مطالبہ ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے ، یہ ہم طے کریں گے پارلیمان سے متعلق کیسز میں کتنے ججز کو بیٹھنا چاہئی، پارلیمان سے متعلق کیس میں تمام ججز کو بٹھا کر فیصلہ کرنا ہوگا.

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔