سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کردی گئی ہے۔ ملٹری کورٹس کے خلاف درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ کے 6 رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تک کسی شہری کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں شروع نہیں ہوا،جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا ڈی جی آئی ایس پی ار نے سویلنز کے ٹرائل جاری ہونے کا کہا ہے۔ اٹارنی جنرل بولے میں اپنی بات پر قائم ہوں سویلنز کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، اٹارنی جنرل نے کہا ابھی جو کارروائی چل رہی وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ملزموں پر جو الزامات سامنے آئے ان کا تعلق آفیشل سیکریٹ ایکٹ سے نہیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا صرف جنگ اور جنگی حالات میں کسی کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہر کیس ملٹری کورٹ میں ٹرائی نہیں ہو سکتا، کیس کا تعلق آرمی ایکٹ سے ثابت ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ تفتیش کیسے ہو گی اور فرد جرم کیسے لگے گی؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اس وقت تو ملزمان پر کوئی چارج ہی نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نہ آئے۔انہوں نے کہا کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ یہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے آغاز میں ایک سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کی اور کہا اس میں 102 افراد کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ اہلخانہ کی زیرحراست افراد سے ہفتے میں ایک بار ملاقات ہو سکتی ہے۔ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے۔ جسٹس عائشہ نے پوچھا کیا ہم ان 102 افراد کی لسٹ پبلک کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا جی نہیں۔ وہ ابھی زیرتفتیش ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے۔ سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس نے کہا اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔