(ویب ڈیسک ) چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطورہ ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ فل کورٹ کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو 25 مارچ 2024 کو لکھا گیا خط 26 مارچ کو موصول ہوا۔ مذکورہ خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی پر چیف جسٹس نے اسی دن افطار کے بعد چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور تمام ججز کے ساتھ میٹنگ کی۔ڈھائی گھنٹے سے زائد تک جاری رہنے والی میٹنگ میں ججز کو انفرادی طور پر سنا گیا۔
اعلامیے کے مطابق 27 مارچ کو چیف جسٹس نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پاکستان سے معاملہ پر ملاقات کی، معاملہ پر چیف جسٹس نے پاکستان بار ممبران اور سپریم کورٹ بار کے صدر سے ملاقات کی ۔ 27 مارچ کو چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس بھی طلب کیا، فل کورٹ اجلاس میں اکثریت نے خط کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات پر اتفاق کیا۔جس کے بعد فل کورٹ اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ 28 مارچ کو دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ وزیراعظم نے ملاقات کی۔اس دوران سینئر جج اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی موجود تھے۔میٹنگ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ججوں کے معاملات اور عدالتی کام میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایسے حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس اور سینئر جج نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی وہ بنیادی ستون جو قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھتا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی۔اس معاملے کی انکوائری ایک بے عیب دیانت دار ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کی جائے گی ۔ وزیر اعظم نے عہد کیا کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا جائے گا اور مذکورہ کمیشن کی تشکیل کے لیے اس کی منظوری لی جائے گی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ گزشتہ اجلاس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی اور وزیر اعظم سے ملاقات میں کیا ہوا اس پر ججز کو بریفنگ دی ۔