تھر کے چوڑے

تھر کے چوڑے
فداحسین حیدری عمرکوٹ اور تھرپارکر کا شمار سندھ کے قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے یہاں چند ایک مسلمان قبیلوں جبکہ زیادہ تر ہندو مذہب کی خواتین اب بھی قدیم زمانے کی ثقافت میں شمارہونے والی تھری چوڑیاں استعمال کرتی ہیں جنھیں چوڑا کہا جاتا ہے جو یہ چوڑابنانے والے کاریگروں کے روزگار کا بھی سبب ہے۔ یہ چوڑے کلائی سے لے کر بازو تک پہنے جاتے ہیں۔ موئنجوداڑو سے ملنے والے مجسمے کے بازوؤں پر بھی ایسے ہی چوڑے نظر آتے ہیں جو کسی زمانے میں عاج یا جانوروں کی ہڈیوں سے بنائے جاتے تھے لیکن اب یہ فائبر گلاس سے بنتے ہیں۔ عمر کوٹ تھر کے رسم ورواج کے مطابق جو شادی شدہ خاتون ہوتی ہے وہ اپنے دونوں ہاتھوں اور بازوؤں پر یہ تھری چوڑے پہنتی ہے اور کنواری غیر شادی شدہ لڑکی صرف اپنے ہاتھوں پر یہ چوڑے پہنتی ہے۔ مسلمانوں میں بیوہ اور ہندو مذہب میں ویدواہ خاتون کے ہاتھ خالی رہتے ہیں وہ یہ چوڑا (چوڑیاں) نہیں پہنتی ہیں۔ تھر چوڑے عید تہوار اور مختلف خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر خصوصی طور پر پہننے جاتے ہیں۔ یہ چوڑے کلائی سے لے کر بازو تک پہنے جاتے ہیں، موئنجو دڑو سے ملنے والیے مجسمے کے بازوؤں پر بھی ایسے ہی چوڑے نظر آتے ہیں جو کسی زمانے میں یہ جانوروں کی ہڈیوں سے بنائے جاتے تھے لیکن اب یہ فائبر گلاس سے بنتے ہیں۔ تھر چوڑے کی تاریخ بہت قدیم ہے مغلیہ عہد کے حکمرانوں اور راجہ مہاراجہ کے ادوار میں یہ چوڑے ابتداء میں ہاتھی کے دانتوں سے تیار کیے جاتے تھے بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اس کام میں بھی تبدیلی آتی گی اب یہ تھر کے چوڑے پلاسٹک سے تیار کیے جاتے ہیں۔ پلاسٹک یہ دانہ بیرون ملک سے منگوایاجاتا ہے پھر اس پلاسٹک دانے میں مختلف کلر لال، ہرا پیلا، سرخ، سفید سمیت مختلف رنگ میں پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد مختلف ڈیزائن کے خوبصورت چوڑے تیار کیے جاتے ہیں۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔