چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب جوبائیڈن کو خبردار کیا ہے کہ تائیوان کے معاملے پر دخل اندازی آگ کیساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں، وہ بھسم ہو جاتے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکا ہماری بات پر دھیان دے گا۔ چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر شی جن پنگ کے درمیان یہ گفتگو ٹیلی فون پر ہوئی جو لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی۔ چینی صدر نے جوبائیڈن کو متنبہ کیا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ ''ون چائنہ پالیسی'' کا احترام اور اس کی پاسداری کرے۔ ہم تائیوان کے معاملے پر بیرونی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے نے بھی اس حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ صدر جوبائیڈن نے شی جن پنگ سے کہا کہ ہم تائیوان کے بارے میں پالیسی کو ہرگز تبدیل نہیں کر رہے۔ امریکا تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی یکطرفہ کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کہ تائیوان نے جوبائیڈن کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ اپنی سکیورٹی شراکت داری کو مزید بہتر کرتے رہیں گے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ طے شدہ کال بائیڈن انتظامیہ کی چین کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے اور ’ذمہ داری کے ساتھ اپنے اختلافات کو سنبھالنے‘ کی کوششوں کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے جمعرات کو بتایا کہ پیچیدہ تعلقات کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے میں دونوں رہنماؤں نے دو گھنٹے سے زیادہ وقت فون پر گزارا اور آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ جوبائیڈن نے اوول آفس سے صدر شی سے ٹیلی فون کال کی، جہاں ان کے ساتھ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سمیت اعلیٰ معاونین بھی موجود تھے۔ انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق امریکی ایوان کی سپیکر کا دورہ تائیوان ایک ڈرامائی سیاسی اقدام ہو گا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جس سے جزیرے کے لیے امریکی حمایت کا مظاہرہ کیا جائے گا تاہم کچھ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ اس دورے سے بیجنگ کے ساتھ امریکی تعلقات کے خراب ہونے کے علاؤہ یہ ایک بڑے سیاسی اور عسکری بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں چین کے تجزیہ کار سکاٹ کینیڈی نے کہا کہ اس صورت حال سے بچنے کے لیے (دونوں ممالک کے درمیان) اعلیٰ سطح پر رابطے ضروری ہیں۔