ایتھنز( ویب ڈیسک ) ایک طرف یورپی ممالک کی طرف سے مسلسل افغان عوام کے مسائل اور ان کی امداد کے حوالے سے بیانات آرہے ہیں،یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پولینڈ ، یونان سمیت دیگر یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں کو ریڈ الرٹ کر رکھا ہے اور اونچی اونچی باڑوں کے ذریعے یہ ممکن بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی افغان مہاجر ان کے ملک میں داخل نہ ہو سکے۔ برطانوی اخبار ٹائمز کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کئی یورپی ممالک نے درجنوں فوجی بکتر بند گاڑیوں کے علاوہ سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں کیونکہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد انہیں یہ خدشہ ہے کہ افغان مہاجرین کسی طرح بھی ان کی سرحد پر پہنچ سکتے ہیں، یورپ کی سبز سرحد کے ساتھ ساتھ درختوں اور گھاس کے میدانوں کو خاردار تاروں اور اونچی دیواروں سے بند کر دیا گیا ہے، دریائے ایوروز جو یورپی یونین کی مشرقی سرحد پر واقع ہے وہاں پر فوجی گاڑیاں گشت کرنے میں مصروف ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے یہ خدشہ ہے کہ وہ ایران اور ترکی کے براڈ لینڈ سے چار ہزار کلو میٹر کے سفر پر رواں دواں ہو جائیں گے اور دریائے ایوروز عبور کر کے یونان کی سرحد پر پہنچ سکتے ہیں اور اگر کوئی افغان مہاجر ایسا کرتا ہے تو اسے یونان کی سرحد پر رکاوٹیں ملیں گی، یونان نے اپنی 209 کلومیٹر طویل سرحدی دیوار پر کام شروع کر دیا ہے اور جن مقامات پر اس کی ترکی اور بلغاریہ کے ساتھ سرحدیں ہیں خاص طور پر ان مقامات پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی طرح پولینڈ نے بھی بیلاروس کے ساتھ اپنی سرحد پر ڈھائی میٹر اونچی ٹھوس باڑ تعمیر کرنی شروع کردی ہے، افغان مہاجرین کی طرف سے خطرہ ہے کہ وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ کو عبور کر کے یہاں پہنچ سکتا ہے، وارسا اس سے قبل ہی اپنی 104 کلومیٹر لمبی سرحد کو محفوظ بنا چکا ہے، جبکہ لتھوانیا کی سرحد پر بھی باڑ کی تعمیر کا آغاز ہونے والا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام یورپی سرحدیں ہیں جہاں سے آگے جا کر افغان مہاجرین دیگر یورپی ممالک تک پہنچ سکیں گے۔ ان تمام یورپی سرحدی ممالک کو ان سرحدی باڑوں اور دیواروں کی تعمیر کے حوالے سے بڑے یورپی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔