ویب ڈیسک: مودی سرکار کے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا پہلے ہی مشکل ہے مگر اب انتہا پسند ہندوئوں نے ایک نئی چال چل دی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کھانے پینے کی اشیا میں ’تھوک‘، ’پیشاب‘ اور مٹی ملانے کی مبینہ ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد اس کا الزام مسلمانوں پر لگانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
بھارتی ریاستوں اتراکھنڈ اور اُتر پردیش میں ریاستی حکومت بغیر شواہد کے ایسا کرنے والوں کے خلاف بھاری جُرمانے اور قید کی سخت سزا سے متعلق قانون سازی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں ایک گھریلو ملازمہ کو کھانا تیار کرتے ہوئے پیشاب کی ملاوٹ کرتے پایا گیا۔ سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد لوگوں نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور متعدد افراد نے ریاستوں میں فوڈ سیفٹی پر تشویش اور خدشات کا اظہار کیا۔
انتہا پسند ہندوئوں نے اپنی روایتی مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ ویڈیوز کو وائرل کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا اور اُن پر الزام تراشی کی مہم بھی چلائی۔ اصل حقائق اور شواہد نے مودی کے غنڈوں کی مسلم مخالف مہم کا پردہ چاک کردیا جس سے دنیا پر تمام حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔
مکمل تحقیق اور مستند شواہد کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ کھانے میں پیشاب شامل کرنے والی خاتون مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے جولائی میں اتراکھنڈ اور اتر پردیش کی حکومتوں کی ہدایات پر عملدرآمد روک دیا جو ہندوؤں کے سالانہ مذہبی تہوار 'کانور یاترا' کے دوران کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کے لیے شناخت ظاہر کرنے کی شرط عائد کرتی تھیں۔
یہ اقدام نہ صرف مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کے جذبات کی دل آزاری کی کھلے عام کوشش ہے جبکہ دوسری جانب انکے کاروبار کو متاثر کرنے کی کھلی سازش ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں اور قانونی ماہرین نے ان قوانین کی افادیت پر سوال اُٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ان قوانین کا غلط استعمال کر کے مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس گھٹیا حرکت پر اترکھنڈ اور اترپردیش میں اپوزیشن رہنمائوں نے بھی بی جے پی حکومت آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار اس طرح کے احکامات کو بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
ان خود ساختہ قوانین کے خلاف اپوزیشن اور درخواست گزاروں کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان ہدایات میں غیر منصفانہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
ایسے متعدد واقعات میں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا مگر آج تک اس کے کوئی مستند شواہد سامنے نہیں آئے اور نہ ہی جرم ثابت ہوسکا ہے۔
گرفتاری سے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان افراد کے تھوکنے کی ویڈیوز کو اس وقت مذہبی رنگ دیا گیا جب بہت سے ہندو قوم پرست اکاؤنٹس نے انھیں "سپٹ جہاد" یا "تھوک جہاد" کا واقعہ قرار دیا۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے والی ایسی ویڈیوز مذہبی منافرت میں اضافہ کر کے ہندو انتہا پسند اکاؤنٹس نے مسلم مخالف بیانات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
مودی سرکار تمام منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود مسلمانوں کو دبانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اب اس طرح کے گھٹیا، بے بنیاد الزامات عائد کرکے مودی سرکار بیساکھیوں کے سہارے کھڑے اپنی حکومت کو بچانے کیلئے یہ حربہ استعمال کر رہی ہے۔
ایسے الزامات عائد کرنے کا مقصد صرف اور صرف ہندو قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔